كتاب الطلاق کتاب: طلاق کے احکام و مسائل 34. بَابُ: كَرَاهِيَةِ الزِّينَةِ لِلْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا باب: بیوہ عورت عدت کے دنوں میں زیب و زینت نہ کرے۔
ام المؤمنین ام سلمہ اور ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہما ذکر کرتی ہیں کہ ایک عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور اس نے عرض کیا کہ اس کی بیٹی کا شوہر مر گیا ہے، اور اس کی بیٹی کی آنکھ دکھ رہی ہے وہ سرمہ لگانا چاہتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پہلے (زمانہ جاہلیت میں) تم سال پورا ہونے پر اونٹ کی مینگنی پھینکتی تھی اور اب تو عدت صرف چار ماہ دس دن ہے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الطلاق 46 (5336)، 47 (5338)، الطب 18 (5706)، صحیح مسلم/الطلاق 9 (1488)، سنن ابی داود/الطلاق 43 (2299)، سنن الترمذی/الطلاق 18 (1197)، سنن النسائی/الطلاق 55 (3530)، 67 (3568)، (تحفة الأشراف: 15876 و18259)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الطلاق 35 (101)، مسند احمد (6/325، 326)، سنن الدارمی/الطلاق 12 (2330) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: جاہلیت میں یہ دستور تھا کہ جب عورت کا شوہر مر جاتا تو وہ ایک خراب اور تنگ کوٹھری میں چلی جاتی، اور برے سے برے کپڑے پہنتی، نہ خوشبو لگاتی نہ زینت کرتی، کامل ایک سال تک ایسا کرتی، جب سال پورا ہو جاتا تو ایک اونٹنی کی مینگنی لاتی، عورت اس کو پھینک کر عدت سے باہر آتی، رسول اکرم ﷺ کا مطلب یہ تھا کہ جاہلیت کے زمانہ میں تو ایسی سخت تکلیف ایک سال تک سہتی تھیں، اب صرف چار مہینے دس دن تک عدت رہ گئی ہے، اس میں بھی زیب و زینت سے رکنا مشکل ہے، امام احمد اور اہلحدیث کا عمل اسی حدیث پر ہے کہ سوگ والی عورت کو سرمہ لگانا کسی طرح جائز نہیں اگرچہ عذر بھی ہو، اور حنفیہ اور مالکیہ کے نزدیک عذر کی وجہ سے جائز ہے، بلاعذر جائز نہیں، اور شافعی نے کہا رات کو لگا لے اور دن کے وقت اس کو صاف کر ڈالے، تمام فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ جس عورت کا شوہر مر جائے وہ چار مہینے دس دن تک سوگ میں رہے، یعنی زیب و زینت نہ کرے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|