كتاب الطلاق کتاب: طلاق کے احکام و مسائل 20. بَابُ: الرَّجُلُ يُخَيِّرُ امْرَأَتَهُ باب: مرد اپنی بیوی کو ساتھ رہنے یا نہ رہنے کا اختیار دیدے۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو اختیار دیا تو ہم نے آپ ہی کو اختیار کیا، پھر آپ نے اس کو کچھ نہیں سمجھا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الطلاق 5 (5262)، صحیح مسلم/الطلاق 4 (1477)، سنن ابی داود/الطلاق 12 (2203)، سنن الترمذی/الطلاق 4 (1179)، سنن النسائی/النکاح 2 (3204)، الطلاق 27 (3472)، (تحفة الأشراف: 17634)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/45، 171، 173، 185، 202، 205)، سنن الدارمی/الطلاق 5 (2315) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: چاہے طلاق دے لے اور چاہے شوہر کو پسند کرے، پس اگر عورت نے شوہر کو اختیار کیا تو طلاق نہ پڑے گی، یہی قول اہل حدیث کا ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب آیت: «وإن كنتن تردن الله ورسوله» اتری تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے پاس آ کر فرمایا: ”عائشہ! میں تم سے ایک بات کہنے والا ہوں، تم اس میں جب تک اپنے ماں باپ سے مشورہ نہ کر لینا جلد بازی نہ کرنا“، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: اللہ کی قسم! آپ خوب جانتے تھے کہ میرے ماں باپ کبھی بھی آپ کو چھوڑ دینے کے لیے نہیں کہیں گے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ پر یہ آیت پڑھی: «يا أيها النبي قل لأزواجك إن كنتن تردن الحياة الدنيا وزينتها» (سورة الأحزاب: 28) ”اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دیجئیے کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی آرائش و زیبائش پسند کرتی ہو تو آؤ میں تم کو کچھ دے کر اچھی طرح رخصت کر دوں، اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور یوم آخرت کو چاہتی ہو تو تم میں سے جو نیک ہیں اللہ نے ان کے لیے بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے ...“ (یہ سن کر) میں بولی: کیا میں اس میں اپنے ماں باپ سے مشورہ لینے جاؤں گی! میں اللہ اور اس کے رسول کو اختیار کر چکی ہوں ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تفسیر الأحزاب 4 (4785)، 5 (4786تعلیقاً)، سنن النسائی/النکاح 2 (3203)، الطلاق 26 (3470)، (تحفة الأشراف: 16632)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الطلاق 4 (1475)، سنن الترمذی/تفسیر الأحزاب (3204)، مسند احمد (6/78، 103، 153، 163، 185، 248، 264) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: پھر آپ ﷺ نے سب بیویوں سے اسی طرح کہا، لیکن سب نے اللہ و رسول کو اختیار کیا، اور دنیا پر خاک ڈالی، اللہ تعالی کی لعنت دنیا کی چار دن کی بہار پر ہے، پھر آخر اللہ کے پاس جانا ہے، پس آخرت کی بھلائی سب پر مقدم ہے، دنیا تو بری یا بھلی کسی بھی طرح گزر جاتی ہے، لیکن آخرت ہمیشہ رہنا ہے، اللہ آخرت سنوارے۔ آمین۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|