ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے میری امت سے بھول چوک، اور جس کام پہ تم مجبور کر دیئے جاؤ معاف کر دیا ہے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: جب اللہ تعالی نے اس کو معاف کیا، اور دنیا کے احکام میں معافی ہو گئی، تو جب اس نے بھولے سے طلاق دی یا مجبوری کی حالت میں تو طلاق نہ پڑے گی۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11922) (صحیح)» (سند میں ابو بکرالہذلی ضعیف راوی ہے، لیکن حدیث شواہد کی بناء پر صحیح ہے)
It was narrated from Abu Dharr Al-Ghifari that the Messenger of Allah (ﷺ) said:
Allah has forgiven for me my nation their mistakes and forgetfulness, and what they are forced to do."
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2043
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) غلطی سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص ایک کام کرنا چاہتا تھا، بلا ارادہ وہ کام غلط ہوگیا، اسے گناہ نہیں ہوگا، تاہم کیے ہوئے کا م کو دوبارہ صحیح انداز سے انجام دینا، یا اس کی مناسب طریقے سے تلافی کرنا ضروری ہے۔
(2) بھول کا مطلب ہے کہ کام کرنے والے کو یاد نہ رہے، مثلاً: نماز کا وقت ہوجانے پر وہ کسی کام میں مشغول تھا جس کی وجہ سے دیر ہوگئی۔ جب فارغ ہوا تو اسے یاد نہ رہا کہ نماز نہیں پڑھی، یا روزہ رکھ کر کھا پی لیا کیونکہ اسے یاد نہیں رہا تھا کہ وہ روزے سے ہے، یا کسی سے کوئی وعدہ کیا تھا، جب وعدہ پورا کرنے کا وقت آیا تو یاد نہ رہا، اس لیے وقت پروعدہ پورا نہ ہوسکا، تواس تاخیر وغیرہ کا کوئی گناہ نہیں ہوگا۔
(3) جب کسی کو جان سے مار دینے کی دھمکی دے کر کوئی ناجائز کام کروایا جائے، یا کسی ناقابل برداشت نقصان پہنچانے کی دھمکی دے کر ایساکام کرنے پر مجبور کردیا جائے جو وہ کرنا نہیں چاہتا تو وہ کام کرنے والا گناہ گار نہیں ہوگا، مجبور کرنے والے پر اس غلط کام کا گناہ بھی ہوگا اور زبردستی کرنےکا گناہ بھی ہوگا۔
(4) اگر کسی کو مجبور کیا جائے کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے، وہ اپنی جان بچانے کےلیے طلاق کے الفاظ بول دے، یا لکھ دے تو طلاق واقع نہیں ہوگی جیسے کہ حدیث 2046 میں صراحت ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2043