Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
كتاب الزكاة
کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل
2. بَابُ : مَا جَاءَ فِي مَنْعِ الزَّكَاةِ
باب: زکاۃ نہ دینے پر وارد وعید کا بیان۔
حدیث نمبر: 1785
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنِ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَيْدٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا مِنْ صَاحِبِ إِبِلٍ، وَلَا غَنَمٍ، وَلَا بَقَرٍ لَا يُؤَدِّي زَكَاتَهَا، إِلَّا جَاءَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْظَمَ مَا كَانَتْ، وَأَسْمَنَهُ تَنْطَحُهُ بِقُرُونِهَا، وَتَطَؤُهُ بِأَخْفَافِهَا، كُلَّمَا نَفِدَتْ أُخْرَاهَا عَادَتْ عَلَيْهِ أُولَاهَا حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ النَّاسِ".
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی اونٹ، بکری اور گائے والا اپنے مال کی زکاۃ ادا نہیں کرتا، تو اس کے جانور قیامت کے دن اس سے بہت بڑے اور موٹے بن کر آئیں گے جتنے وہ تھے، وہ اسے اپنی سینگوں سے ماریں گے اور کھروں سے روندیں گے، جب اخیر تک سب جا نور ایسا کر چکیں گے تو پھر باربار تمام جانور ایسا ہی کرتے رہیں گے یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کر دیا جائے گا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الزکاة 43 (1460)، الأیمان والنذور 3 (6638)، صحیح مسلم/الزکاة 9 (990)، سنن الترمذی/الزکاة1 (617)، سنن النسائی/الزکاة 2 (2442)، 11 (2458)، (تحفة الأشراف: 11981)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/152، 158) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: بخاري ومسلم

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1785 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1785  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
زكاة نہ دینا بہت بڑا گناہ ہے۔

(2)
جانوروں میں بھی زکاۃ فرض ہے جس کی تفصیل اگلے ابواب میں آرہی ہے۔

(3)
کبیرہ گناہوں کے مرتکب افراد کو میدان حشر میں بھی گناہوں کی سزا ملے گی۔

(4)
بعض صورتوں میں ممکن ہے کہ محشر کی یہ سزا ہی اس کے لیے کافی ہو جائے اور جہنم کی سزا نہ بھگتنی پڑے۔
ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں:
(اسے یہ عذاب ہوتا رہے گا)
اس دن جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے حتی کہ لوگوں کا فیصلہ ہو جائے گا پھر اسے جنت یا جہنم کا راستہ دکھا دیا جائے گا۔ (صحیح مسلم، الزکاۃ، باب اثم مانع الزکاۃ، حدیث: 987)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1785   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2442  
´زکاۃ نہ دینے والوں پر وارد وعید کا بیان۔`
ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ خانہ کعبہ کے سایہ میں بیٹھے ہوئے تھے، جب آپ نے ہمیں آتے دیکھا تو فرمایا: وہ بہت خسارے والے لوگ ہیں، رب کعبہ کی قسم! میں نے (اپنے جی میں) کہا: کیا بات ہے؟ شاید میرے بارے میں کوئی آیت نازل ہوئی ہے، میں نے عرض کیا: کون لوگ ہیں میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں؟ آپ نے فرمایا: بہت مال والے، مگر جو اس طرح کرے، اس طرح کرے یہاں تک کہ آپ اپنے سامنے، اپنے دائیں، ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2442]
اردو حاشہ:
(1) آگے، دائیں اور بائیں۔ یعنی ہر ضروری مصرف میں خرچ کیا، خواہ وہ فرض زکاۃ کے علاوہ بھی ہو۔
(2) قیامت کے دن صرف انسان ہی نہیں بلکہ ہر ذی روح چیز اٹھے گی۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2442   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 617  
´زکاۃ نہ نکالنے پر وارد وعید کا بیان۔`
ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ کعبہ کے سائے میں بیٹھے تھے آپ نے مجھے آتا دیکھا تو فرمایا: رب کعبہ کی قسم! قیامت کے دن یہی لوگ خسارے میں ہوں گے ۲؎ میں نے اپنے جی میں کہا: شاید کوئی چیز میرے بارے میں نازل کی گئی ہو۔ میں نے عرض کیا: کون لوگ؟ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہی لوگ جو بہت مال والے ہیں سوائے ان لوگوں کے جو ایسا ایسا کرے، آپ نے اپنے دونوں ہاتھ سے لپ بھر کر اپنے سامنے اور اپنے دائیں اور اپنے بائیں طرف اشارہ کیا، پھر فرمایا: قسم ہے اس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الزكاة/حدیث: 617]
اردو حاشہ:
1؎:
زکاۃ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے تیسرا رکن ہے،
اس کے لغوی معنی بڑھنے اور زیادہ ہونے کے ہیں،
زکاۃ کو زکاۃ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ یہ زکاۃ دینے والے کے مال کو بڑھاتی اور زیادہ کرتی ہے،
اور ایک قول یہ ہے کہ اس کے معنی پاک کرنے کے ہیں اور زکاۃ کو زکاۃ اس لیے بھی کہتے ہیں کہ یہ مال کو پاک کرتی ہے اور صاحب مال کو گناہوں سے پاک کرتی ہے،
اس کی فرضیت کے وقت میں علماء کا اختلاف ہے،
اکثر علماء کا یہ قول ہے کہ 2ھ میں فرض ہوئی اور محققین علماء کا خیال ہے کہ یہ فرض تو مکہ میں ہی ہو گئی تھی مگر اس کے تفصیلی احکام مدینہ میں 2ھ میں نازل ہوئے۔

2؎:
یا توآپ کسی فرشتے سے بات کر رہے تھے،
یا کوئی خیال آیا تو آپ نے ((هُمْ الْأَخْسَرُونَ)) فرمایا۔

3؎:
یہ عذاب عالم حشر میں ہو گا،
حساب و کتاب سے پہلے۔

4؎:
یعنی روندنے اور سینگ مارنے کا سلسلہ برابر چلتا رہے گا۔

5؎:
اس کی تخریج سعید بن منصور،
بیہقی،
خطیب اور ابن نجار نے کی ہے،
لیکن روایت موضوع ہے اس میں ایک راوی محمد بن سعید بورمی ہے جو کذاب ہے،
حدیثیں وضع کرتا تھا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 617   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2300  
حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا جبکہ آپﷺ کو کعبہ کے سایہ میں تشریف فرما تھے تو آپﷺ نے مجھے دیکھ کر فرمایا: رب کعبہ کی قسم! وہی لوگ سب سے زیادہ ناکام اور نقصان اٹھانے والے ہیں میں آ کر آپ کے پاس بیٹھا ہی تھا اور میں نے قرارو ثبات حاصل نہیں کیا تھا کہ میں اٹھ کھڑا ہوا اور میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میرے ماں باپ آپﷺ پر قربان! وہ کون لوگ ہیں؟... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:2300]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
مالداروں کا یہ قوی ودینی فریضہ ہے کہ وہ دین کے کاموں میں اور اجتماعی وقومی مفادات کے موقعہ پر بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور اپنی اپنی بساط کے مطابق خرج کریں،
وگرنہ وہ دنیا وآخرت میں ناکام اور نقصان سے دو چار ہوں گے۔
اوردنیا میں ہی لوگوں کی نفرت اور غیظ وغضب کا نشانہ بنیں گے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2300