سنن ابن ماجه
كتاب المساجد والجماعات
کتاب: مسا جد اور جماعت کے احکام و مسائل
12. بَابُ : الصَّلاَةِ فِي أَعْطَانِ الإِبِلِ وَمُرَاحِ الْغَنَمِ
باب: اونٹوں اور بکریوں کے باڑوں میں نماز پڑھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 769
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، عَنْ يُونُسَ ، عَنْ الْحَسَنِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ الْمُزَنِيِّ ، قَالَ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" صَلُّوا فِي مَرَابِضِ الْغَنَمِ، وَلَا تُصَلُّوا فِي أَعْطَانِ الْإِبِلِ، فَإِنَّهَا خُلِقَتْ مِنَ الشَّيَاطِينِ".
عبداللہ بن مغفل مزنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھو، اور اونٹوں کے باڑ میں نماز نہ پڑھو، کیونکہ ان کی خلقت میں شیطنت ہے“۔
تخریج الحدیث: «نفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9651، ومصباح الزجاجة: 289)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/المساجد 41 (736)، وذکر أعطان الإبل، مسند احمد (4/85، 86، 5/54، 55) (صحیح)» (اس حدیث کا شاہد براء رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے، جو ابو داود: 184 - 493 میں ہے، لیکن شاہد نہ ملنے کی وجہ سے «فإنها خلقت من الشياطين» کے لفظ کو البانی صاحب نے ضعیف کہا ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 2210، و تراجع الألبانی: رقم: 298)۔
وضاحت: ۱؎: فؤاد عبدالباقی کے نسخہ میں اور ایسے ہی پیرس کے مخطوطہ میں «هشيم» کے بجائے «أبو نعيم» ہے، جو غلط ہے۔ ۲؎: شیطنت سے مراد شرارت ہے، یہ مطلب نہیں ہے کہ اونٹ شیطان سے پیدا ہوا، ورنہ وہ حلال نہ ہوتا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے اوپر نماز ادا نہ کرتے، لیکن شافعی کی روایت میں یوں ہے کہ جب تم اونٹوں کے باڑہ میں ہو اور نماز کا وقت آ جائے تو وہاں سے نکل جاؤ کیونکہ اونٹ جن ہیں، اور جنوں سے پیدا ہوئے ہیں، اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اونٹوں میں شرارت کا مادہ زیادہ ہے، اور یہی وجہ ہے وہاں نماز پڑھنا منع ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: حسن
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 769 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث769
اردو حاشہ:
فائدہ:
شیطانوں سے پیدا ہونے کا یہ مطلب ہے کہ ان میں شرارت کی عادت پائی جاتی ہے۔
اونٹ کا کینہ مشہور ہے اس لیے خطرہ رہتا ہے کہ موقع پا کر نقصان پہنچانے کی کوشش نہ کرے۔
ورنہ پیشاب اور منگنیاں تو بکریوں اور اونٹوں دونوں کے باڑے میں ہوتی ہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 769
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 736
´اونٹوں کے باڑے میں نماز پڑھنے کی ممانعت کا بیان۔`
عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹوں کے باڑے میں نماز پڑھنے سے روکا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 736]
736 ۔ اردو حاشیہ: اونٹوں کے باڑے میں نماز سے منع کی وجہ نجاست نہیں ورنہ بکریوں کے باڑے میں بھی منع ہونی چاہیے، حالانکہ اس میں نماز پڑھنے کی صراحتاً اجازت آئی ہے۔ فعلی روایت بھی گزر چکی ہے۔ (دیکھیے، حدیث: 703) نہی کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اونٹ کو شیطان الدواب کہا گیا ہے، یعنی یہ بڑا شریر جانور ہے۔ طاقت ور اور ضدی ہے۔ نمازی کو ہر وقت دھڑکا لگا رہے گا کہ کہیں منہ میں نہ ڈال لے یا اوپر ہی نہ بیٹھ جائے یا ٹانگ نہ دے مارے تو اس کی توجہ نماز کی بجائے اونٹوں کی طرف لگی رہے گی۔ اس طرح خشوع و خضوع نہ رہے گا۔ اگر باڑہ اونٹوں سے خالی ہو تو کیا نماز پڑھی جا سکتی ہے؟ ظاہر تو یہ ہے کہ پڑھی جا سکتی ہے کیونکہ مذکورہ خطرہ نہیں رہا، مگر ممکن ہے کہ شیطان کی طرف نسبت کی بنا پر خالی باڑے میں شیطانی اثرات رہتے ہوں، اس لیے ظاہر الفاظ کے اعتبار سے اجتناب بہتر ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 736