سنن ابن ماجه
باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم
رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے فضائل و مناقب
14. بَابُ : فَضْلِ عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
باب: عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب۔
حدیث نمبر: 111
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ ، عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ ، قَالَ: ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِتْنَةً فَقَرَّبَهَا، فَمَرَّ رَجُلٌ مُقَنَّعٌ رَأْسُهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَذَا يَوْمَئِذٍ عَلَى الْهُدَى"، فَوَثَبْتُ، فَأَخَذْتُ بِضَبْعَيْ عُثْمَانَ، ثُمَّ اسْتَقْبَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: هَذَا؟ قَالَ:" هَذَا".
کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فتنہ کا ذکر کیا کہ وہ جلد ظاہر ہو گا، اسی درمیان ایک شخص اپنا سر منہ چھپائے ہوئے گزرا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ شخص ان دنوں ہدایت پر ہو گا“، کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں تیزی سے اٹھا، اور عثمان رضی اللہ عنہ کے دونوں کندھے پکڑ لیے، پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب رخ کر کے کہا: کیا یہی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں یہی ہیں (جو ہدایت پر ہوں گے)“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11117، ومصباح الزجاجة: 45)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/المنا قب 19 (3704)، مسند احمد (4/ 235، 236، 242، 243) (صحیح)» (ابن سیرین اور کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے، لیکن مرة بن کعب کی ترمذی کی حدیث نمبر (3704) کے شاہد سے یہ صحیح ہے، جس کی تصحیح امام ترمذی نے کی ہے)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے یہ پتہ چلتا ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کرنے والے، اور فتنہ کھڑا کرنے والے حق پر نہ تھے، اور عثمان رضی اللہ عنہ حق پر تھے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 111 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث111
اردو حاشہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے بتانے سے مستقبل کی بہت سی باتیں بیان فرمائیں جو بعینہ اسی طرح واقع ہوئیں، یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی دلیل ہے، بہت سی باتیں ابھی واقع ہونا باقی ہیں اور ہمارا ایمان ہے کہ وہ تمام پیش گوئیاں اپنے اپنے وقت پر پوری ہوں گی، تاہم مستبقل کی کسی خبر کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی قرار دینے سے پہلے یہ معلوم کر لینا چاہیے کہ کیا وہ صحیح سند سے ثابت بھی ہے یا نہیں؟
(2)
فتنوں کی پیشگی خبر دینے کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان اس موقع پر صحیح راستے پرقائم رہیں اور گمراہ نہ ہو جائیں، اس کے علاوہ جب وہ واقعہ پیش آتا ہے جس کی خبر دی گئی تھی تو مومن کے ایمان میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
(3)
اس سے معلوم ہوا کہ مفسدین نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر جو الزامات لگائے تھے وہ سراسر غلط تھے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا طرز عمل درست تھا۔
خلافت و ملوکیت نامی کتاب میں واقعات کو اس انداز سے پیش کیا گیا ہے جس سے ان الزامات کے درست ہونے کا تاثر ملتا ہے۔
اس غلط فہمی کے ازالہ کے لیے حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ کی کتاب خلافت و ملوکیت کی تاریخی و شرعی حیثیت کا مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ حقیقت حال سے صحیح آگاہی ہو۔
(4)
فتنہ سے مراد مفسدین کا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر جھوٹے الزامات لگا کر فساد پھیلانا ہے جس کے نتیجہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت کا سانحہ پیش آیا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 111