سنن ابي داود
كِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ
کتاب: محصورات اراضی اور امارت سے متعلق احکام و مسائل
28. باب فِي إِخْرَاجِ الْيَهُودِ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ
باب: جزیرہ عرب سے یہود کے نکالنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3029
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ الأَحْوَلِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْصَى بِثَلَاثَةٍ، فَقَالَ: أَخْرِجُوا الْمُشْرِكِينَ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ وَأَجِيزُوا الْوَفْدَ بِنَحْوٍ مِمَّا كُنْتُ أُجِيزُهُمْ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَسَكَتَ عَنِ الثَّالِثَةِ أَوْ قَالَ: فَأُنْسِيتُهَا، وقَالَ: الْحُمَيْدِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ، قَالَ سُلَيْمَانُ: لَا أَدْرِي أَذَكَرَ سَعِيدٌ الثَّالِثَةَ فَنَسِيتُهَا، أَوْ سَكَتَ عَنْهَا.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنی وفات کے وقت) تین چیزوں کی وصیت فرمائی (ایک تو یہ) کہا کہ مشرکوں کو جزیرۃ العرب سے نکال دینا، دوسرے یہ کہ وفود (ایلچیوں) کے ساتھ ایسے ہی سلوک کرنا جیسے میں ان کے ساتھ کرتا ہوں۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: اور تیسری چیز کے بارے میں انہوں نے سکوت اختیار کیا یا کہا کہ (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر تو کیا) لیکن میں ہی اسے بھلا دیا گیا۔ حمیدی سفیان سے روایت کرتے ہیں کہ سلیمان نے کہا کہ مجھے یاد نہیں، سعید نے تیسری چیز کا ذکر کیا اور میں بھول گیا یا انہوں نے ذکر ہی نہیں کیا خاموش رہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجھاد 175 (3053)، الجزیة 6 (3168)، المغازي 83 (4431)، صحیح مسلم/الوصیة 5 (1637)، (تحفة الأشراف: 5517)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/222) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (3053) صحيح مسلم (1637)
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 3029 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3029
فوائد ومسائل:
1۔
جزیرۃ العرب یہ علاقہ بحر ہند بحر قلزم۔
بحر شام۔
اور دجلہ فرات سے گھرا ہوا ہونے کی وجہ سے جزیرہ کہلاتا ہے۔
اور یہ زمانہ قدیم سے اہل عرب کا وطن ہے۔
اس کی حدود طول میں عدن سے اطراف شام اور جدہ سے ریف عراق تک پھیلی ہوئی ہیں۔
(نیل الأوطار، باب منع أھل الذمة من سکنی الحجاز:72/8) یہ چونکہ اسلام کا اولین مرکزہے۔
اور یہیں سے اسلام کی اشاعت پوری دنیا میں ہونی تھی، اس لئے اس کو یہود ونصاریٰ کے دجل سے محفوظ رکھنا ضروری تھا اور ہے، سازش کے ذریعے سے یہود نے عیسایئت کا چہرہ مسخ کیا اور یہ دونوں بلکہ مجوس اور مشرکین کی یہ کوششیں کہ اسلام میں خود ساختہ چیزیں ملائی جایئں اوائل اسللام ہی میں سامنے آگئی تھیں۔
2۔
تیسری بات بھولنے کا واقعہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہے یا سفیان بن عینیہ کا حافظ اب حجر کے نزدیک زیادہ قرین قیاس یہ ہے کہ ابن عینیہ نے یہ کہا کہ میں تیسری بات بھول گیا ہوں۔
وہ تیسری بات کیا تھی۔
جسے ابن عینیہ بھول گئے؟ اس کی بابت موطا امام مالک میں اشارہ ہے کہ تیسری بات یہ ہوسکتی ہے۔
کہ میری قبر کو میرے بعد بت نہ بنا لینا۔
جس طرح موطا کی روایت میں یہ اخراج یہود کے ساتھ مذکورہ ہے یا جس طرح حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں تیسری تقلین، نماز اور غلاموں کا خیال کھنا ہوسکتی ہے۔
(فتح الباري، کتاب المغازي باب مرض النبي ﷺ ووفانه) مشرکین کو جزیرۃ العرب سے نکالنے کے معنی میں بت پرست مشرک یہہود ونصاریٰ اور مجوس سبھی شامل ہیں اور انہیں یہاں سے نکال باہرکرنا واجب ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3029
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:536
536- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: جمعرات کا دن بھی کیا تھا؟ پھر وہ رونے لگے، یہاں تک کہ ان کے آنسو زمین پر گرنے لگے۔ ان سے کہا گیا: اے ابوعباس! جمعرات کے دن کیا ہوا تھا؟ تو انہوں نے بتایا: جمعرات کے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تکلیف میں اضافہ ہوگیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میرے پاس کوئی چیز لے آؤ تاکہ میں تمہیں ایک تحریر لکھ دوں تم اس کے بعد کبھی گمراہ نہیں ہوگے۔“ (سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں) تو حاضرین میں اس بارے میں اختلاف ہوگیا، حالانکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں اس طرح کا اختلاف مناسب نہیں ہے۔ کسی صاحب نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:536]
فائدہ:
اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے قریب چند دن پہلے کے بخار کی شدت کا بیان ہے، اس حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے کہا: کہ میرے پاس کاغذ لاؤ، پھر جولکھوانا چاہتے تھے، وہ زبانی بول کر بیان کر دیں۔ اس حدیث کو بعض گمراہ لوگ غلط استعمال کرتے ہیں جو کہ درست نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بشر تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بخار بھی ہوتا تھا، اس کی تکالیف بھی آپ محسوس کرتے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی کا بہت غم کرتے تھے، نیز یہ بھی ثابت ہوا کہ وصیت لکھ کر اور بول کر دونوں صورتوں میں درست ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 536