سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
کتاب سنن ابي داود تفصیلات

سنن ابي داود
کتاب: محصورات اراضی اور امارت سے متعلق احکام و مسائل
Tribute, Spoils, and Rulership (Kitab Al-Kharaj, Wal-Fai Wal-Imarah)
20. باب فِي بَيَانِ مَوَاضِعِ قَسْمِ الْخُمُسِ وَسَهْمِ ذِي الْقُرْبَى
20. باب: خمس کے مصارف اور قرابت داروں کو حصہ دینے کا بیان۔
Chapter: The Division Of The Khumus And The Share Of His Relatives.
حدیث نمبر: 2988
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا يحيى بن خلف، حدثنا عبد الاعلى، عن سعيد يعني الجريري، عن ابي الورد، عن ابن اعبد، قال: قال لي علي رضي الله عنه: الا احدثك عني وعن فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم، وكانت من احب اهله إليه؟ قلت: بلى قال: إنها جرت بالرحى حتى اثر في يدها، واستقت بالقربة حتى اثر في نحرها وكنست البيت حتى اغبرت ثيابها، فاتى النبي صلى الله عليه وسلم خدم، فقلت: لو اتيت اباك فسالتيه خادما، فاتته فوجدت عنده حداثا فرجعت فاتاها من الغد فقال: ما كان حاجتك؟ فسكتت، فقلت انا احدثك: يا رسول الله جرت بالرحى حتى اثرت في يدها وحملت بالقربة حتى اثرت في نحرها فلما ان جاءك الخدم امرتها ان تاتيك فتستخدمك خادما يقيها حر ما هي فيه، قال:" اتقي الله يا فاطمة وادي فريضة ربك واعملي عمل اهلك، فإذا اخذت مضجعك، فسبحي ثلاثا وثلاثين واحمدي ثلاثا وثلاثين وكبري اربعا وثلاثين فتلك مائة فهي خير لك من خادم"، قالت: رضيت عن الله عز وجل، وعن رسوله صلى الله عليه وسلم.
(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَى، عَنْ سَعِيدٍ يَعْنِي الْجُرَيرِيَّ، عَنْ أَبِي الْوَرْدِ، عَنْ ابْنِ أَعْبُدَ، قَالَ: قَالَ لِي عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَلَا أُحَدِّثُكَ عَنِّي وَعَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَتْ مِنْ أَحَبِّ أَهْلِهِ إِلَيْهِ؟ قُلْتُ: بَلَى قَالَ: إِنَّهَا جَرَّتْ بِالرَّحَى حَتَّى أَثَّرَ فِي يَدِهَا، وَاسْتَقَتْ بِالْقِرْبَةِ حَتَّى أَثَّرَ فِي نَحْرِهَا وَكَنَسَتَ الْبَيْتَ حَتَّى اغْبَرَّتْ ثِيَابُهَا، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَدَمٌ، فَقُلْتُ: لَوْ أَتَيْتِ أَبَاكِ فَسَأَلْتِيهِ خَادِمًا، فَأَتَتْهُ فَوَجَدَتْ عِنْدَهُ حُدَّاثًا فَرَجَعَتْ فَأَتَاهَا مِنَ الْغَدِ فَقَالَ: مَا كَانَ حَاجَتُكِ؟ فَسَكَتَتْ، فَقُلْتُ أَنَا أُحَدِّثُكَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ جَرَّتْ بِالرَّحَى حَتَّى أَثَّرَتْ فِي يَدِهَا وَحَمَلَتْ بِالْقِرْبَةِ حَتَّى أَثَّرَتْ فِي نَحْرِهَا فَلَمَّا أَنْ جَاءَكَ الْخَدَمُ أَمَرْتُهَا أَنْ تَأْتِيَكَ فَتَسْتَخْدِمَكَ خَادِمًا يَقِيهَا حَرَّ مَا هِيَ فِيهِ، قَالَ:" اتَّقِي اللَّهَ يَا فَاطِمَةُ وَأَدِّي فَرِيضَةَ رَبِّكِ وَاعْمَلِي عَمَلَ أَهْلِكِ، فَإِذَا أَخَذْتِ مَضْجَعَكِ، فَسَبِّحِي ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ وَاحْمَدِي ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ وَكَبِّرِي أَرْبَعًا وَثَلَاثِينَ فَتِلْكَ مِائَةٌ فَهِيَ خَيْرٌ لَكِ مِنْ خَادِمٍ"، قَالَتْ: رَضِيتُ عَنِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَعَنْ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابن اعبد کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا: کیا میں تمہیں اپنے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی جو آپ کو اپنے تمام کنبے والوں میں سب سے زیادہ محبوب اور پیاری تھیں کے متعلق نہ بتاؤں؟ میں نے کہا: کیوں نہیں، ضرور بتائیے، آپ نے کہا: فاطمہ رضی اللہ عنہا نے چکی پیسی یہاں تک کہ ان کے ہاتھوں میں نشان پڑ گئے، اور پانی بھربھر کر مشک لاتیں جس سے ان کے سینے میں درد ہونے لگا اور گھر میں جھاڑو دیتیں جس سے ان کے کپڑے خاک آلود ہو جاتے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ غلام اور لونڈیاں آئیں تو میں نے ان سے کہا: اچھا ہوتا کہ تم اپنے ابا جان کے پاس جاتی، اور ان سے اپنے لیے ایک خادمہ مانگ لیتی، چنانچہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو دیکھا کہ وہاں کچھ لوگ آپ سے گفتگو کر رہے ہیں تو لوٹ آئیں، دوسرے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے آئے اور پوچھا: تم کس ضرورت سے آئی تھیں؟، وہ چپ رہیں تو میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں آپ کو بتاتا ہوں، چکی پیستے پیستے ان کے ہاتھ میں نشان (گٹھا) پڑ گیا، مشک ڈھوتے ڈھوتے سینے میں درد رہنے لگا اب آپ کے پاس خادم آئے ہیں تو میں نے ان سے کہا کہ وہ آپ کے پاس جائیں، اور آپ سے ایک خادم مانگ کر لائیں، جس کے ذریعہ اس شدت و تکلیف سے انہیں نجات ملے جس سے وہ دو چار ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فاطمہ! اللہ سے ڈرو اور اپنے رب کے فرائض ادا کرتی رہو، اور اپنے گھر کے کام کیا کرو، اور جب سونے چلو تو (۳۳) بار سبحان اللہ، (۳۳) بار الحمدللہ، اور (۳۴) بار اللہ اکبر کہہ لیا کرو، یہ کل سو ہوئے یہ تمہارے لیے خادمہ سے بہتر ہیں ۱؎۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے خوش ہوں۔

وضاحت:
۱؎: شاید اسی میں مصلحت رہی ہوکہ رسول اللہ ﷺ کی آل واولاد کو دنیا میں تکلیف وتنگ دستی رہے، تاکہ یہ چیز آخرت میں ان کے لئے بلندی درجات کا سبب بنے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود بہذا الیساق: (اتقي اللّٰہ یا فاطمة، وأدي فریضة ربک، واعملي عمل أہلک)، وأما البقیة من الحدیث فقد رواہ کل من:صحیح البخاری/فرض الخمس 6 (3113)، فضائل الصحابة 9 (3705)، النفقات 6 (5361)، الدعوات 11 (6318)، صحیح مسلم/الذکر والدعاء 19 (2727)، سنن الترمذی/الدعوات 24 (3408)، (تحفة الأشراف: 10245)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/96)، ویأتی ہذا الحدیث فی الأدب (5062) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (مذکورہ جملے کے اضافہ کے ساتھ ضعیف ہے کیونکہ اس سے راوی ابوالورد لین الحدیث ہیں اور ابن اعبد مجہول ہیں، بقیہ حصہ توصحیحین میں ہے)

Ibn A’bud said, Ali said to me “May I not narrate you about me and Fathimah daughter of the Messenger of Allah ﷺ? She was most favorite to him of his family. ” I said “Yes”. He said “She pulled the grinding stone with her hand so much that it affected her hand, she carried water in a water bag so much so that it affected the upper portion of her chest, she swept the house so much so that her clothes became dirty. The Prophet ﷺ acquired some slaves”. So I said “Would that you go to your father and ask him for a slave. She then came to him and found some people with him talking to him. She therefore returned. Next day she came again. He asked (her), what was your need? But she kept silence. So I said, I inform you, Messenger of Allah ﷺ. She pulled grinding stone so much that it affected her hand, she carried water bag so much so that it affected the upper portion of her chest. When the slaves were brought to you I asked her to come to you and to ask you for a slave to save her from the exertion she is suffering. ” He said “Fear Allaah, Fathimah and perform the duty of your Lord and do the work of your family. ” When you go to bed say “Glory be to Allaah” thirty three times, “Praise be to Allaah” thirty three times, “Allaah is Most Great” thirty four times. This is hundred times. That will be better for you than a servant. She said “I am pleased with Allaah, Most High and with his Messenger ﷺ. ”
USC-MSA web (English) Reference: Book 19 , Number 2982


قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
انظر الحديث الآتي (5063)
علي بن عبد: مجهول (تق: 4689)
وأصل الحديث في الصحيحين بدون ھذه القصة
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 108

   صحيح البخاري6318علي بن أبي طالبإذا أويتما إلى فراشكما أو أخذتما مضاجعكما فكبرا ثلاثا وثلاثين وسبحا ثلاثا وثلاثين واحمدا ثلاثا وثلاثين فهذا خير لكما من خادم
   صحيح البخاري3705علي بن أبي طالبإذا أخذتما مضاجعكما تكبرا أربعا وثلاثين وتسبحا ثلاثا وثلاثين وتحمدا ثلاثا وثلاثين فهو خير لكما من خادم
   صحيح البخاري3113علي بن أبي طالبكبرا الله أربعا وثلاثين واحمدا ثلاثا وثلاثين وسبحا ثلاثا وثلاثين فإن ذلك خير لكما مما سألتماه
   صحيح البخاري5361علي بن أبي طالبسبحا ثلاثا وثلاثين واحمدا ثلاثا وثلاثين وكبرا أربعا وثلاثين فهو خير لكما من خادم
   صحيح البخاري5362علي بن أبي طالبتسبحين الله عند منامك ثلاثا وثلاثين وتحمدين الله ثلاثا وثلاثين وتكبرين الله أربعا وثلاثين
   صحيح مسلم6915علي بن أبي طالبتكبرا الله أربعا وثلاثين وتسبحاه ثلاثا وثلاثين وتحمداه ثلاثا وثلاثين فهو خير لكما من خادم
   سنن أبي داود2988علي بن أبي طالبإذا أخذت مضجعك فسبحي ثلاثا وثلاثين واحمدي ثلاثا وثلاثين وكبري أربعا وثلاثين فتلك مائة فهي خير لك من خادم قالت رضيت عن الله وعن رسوله
   سنن أبي داود5062علي بن أبي طالبسبحا ثلاثا وثلاثين واحمدا ثلاثا وثلاثين وكبرا أربعا وثلاثين فهو خير لكما من خادم
   مسندالحميدي43علي بن أبي طالبتسأله خادما

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 2988 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2988  
فوائد ومسائل:
یہ روایت مذکورہ بالا تفصیل کے ساتھ اس سند سے ضعیف ہے۔
مگر بالاختصار یہ دوسری سند سے صحیح ثابت ہے جیسے کہ آئندہ حدیث نمبر 5062 میں موجود ہے۔
اور مذکورہ بالا تسبیحات انتہائی فضیلت رکھی ہیں۔


اور اس میں ایک بیٹی اور بیوی کو گھر والوں کا کام کرنے کی تلقین بھی ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2988   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5062  
´سوتے وقت تسبیح پڑھنے کا بیان۔`
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چکی پیسنے سے اپنے ہاتھ میں پہنچنے والی تکلیف کی شکایت لے کر گئیں، اسی دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی لائے گئے تو وہ آپ کے پاس لونڈی مانگنے آئیں، لیکن آپ نہ ملے تو ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو بتا کر چلی آئیں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو بتایا (کہ فاطمہ آئی تھیں ایک خادمہ مانگ رہی تھیں) یہ سن کر آپ ہمارے پاس تشریف لائے، ہم سونے کے لیے اپنی خواب گاہ میں لیٹ چکے تھے، ہم اٹھنے لگے تو آپ نے فرمایا: ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/أبواب النوم /حدیث: 5062]
فوائد ومسائل:

مندرجہ بالا تسبیحات جہاں فرض نمازوں کے بعد مستحب ہیں۔
وہاں رات کو سوتے وقت پڑھنا بھی مستحب ہیں۔


اگر انسان ایمان ویقین اور پابندی کے ساتھ اس پرعمل کرے تو ان کی برکت سے جسمانی تھکن دور ہونے کے علاوہ ایمان میں اضافہ اور درجات میں بلندی حاصل ہوتی ہے۔
جبکہ خادم کی بابت باز پُرس ہوگی۔


مسلمان بیوی اس امر کی پابند ہے۔
کہ شوہر کی خدمت اور گھر کے سارے کام سرانجام دے۔
جیسے سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ازواج نبی کریمﷺ اور دیگر صحابیات رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے معمولات سے ثابت ہے۔
اس لئے بعض لوگوں کا یہ دعویٰ کہ بیوی گھریلو امور کی پابند نہیں محض بے اصل بات ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5062   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:43  
43- عبد الرحمٰن بن ابولیلیٰ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کرتے ہیں: سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی خادم مانگ لیں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں ایسی چیز کے بارے میں نہ بتاؤں جو تمہارے لئے اس سے زیادہ بہتر ہو؟ تم سوتے وقت 33 مرتبہ سبحان اللہ، 33 مرتبہ الحمدللہ اور 34 مرتبہ اللہ اکبر پڑھ لیا کرو۔ (یہ روایت بیان کرنے کے بعد) سفیان نے کہا: ان میں سے کوئی ایک کلمہ 34 مرتبہ ہے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جب سے میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے یہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:43]
فائدہ:
اس حدیث میں یہ ذکر ہوا ہے کہ سوتے وقت ذکر و اذکار کا خاص اہتمام کرنا چاہیے، اور وہ اذکار کافی زیادہ ہیں، اس حدیث میں جو ذکر بیان ہوا ہے وہ 33 بارسبحان اللہ، 33 بار الحمد للہ اور 34 بار اللہ اکبر ہے۔
عورت اپنے خاوند کے گھر میں گھریلو کام کرے گی، مثلاً آٹا گوندھنا، روٹی پکانا، کپڑوں اور گھر کی صفائی کرنا وغیرہ، بعض لوگ عورت کے ذمے صرف جماع لگاتے ہیں، ان کی یہ بات درست نہیں ہے، اگرممکن ہو سکے تو عورت خاوند کے بیرونی کاموں میں بھی شرعی پردہ میں رہ کر معاونت کرے گی، جس طرح سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا اپنے خاوند سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کے بیرونی کاموں میں بھی معاونت کرتی تھیں۔ (صحیح البخاری: 5224)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی شرح میں مفصل بحث کی ہے۔ (فتح الباری: 672/11) عورت کو گھر یلو کام حتی الوسع خود کرنے چاہئیں اور خادم رکھنے سے گریز کرنا چاہیے۔ اگر عورت گھر یلو کام کرنے کی طاقت نہیں رکھتی، مثلاً: بیمار ہے، تو ایسی صورت میں خاوند کو چاہیے کہ وہ گھر میں خادمہ کا اہتمام کرے۔ یاد رہے کہ عورت کے خادم کا نفقہ شوہر کے ذمے ہوگا۔ جب سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے خادم کا مطالبہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں سوتے وقت ذکر کی تلقین کی، اس کے مختلف جوابات دیے گئے ہیں، مثلاً: ① تسبیح فاطمہ رضی اللہ عنہا سے انسان کو قوت مل جاتی ہے، جس سے سارے دن کی تھکاوٹ دور ہو جاتی ہے۔
② ذکر و اذکار کا فائدہ آخرت کے ساتھ ہے، جبکہ خادم کا فائدہ دنیا کے ساتھ مختص ہے۔ آخرت دنیا کے مقابلے میں زیادہ بہتر اور دائمی ہے۔ یہ بھی یادر ہے کہ ان اذکار کا اہتمام ہر رات سونے سے پہلے کرنا چاہیے، اس میں مرد وعورت سب شامل ہیں۔سیدنا علی رضی اللہ عنہ بہت زیادہ متبع سنت تھے، جو بات سنتے تھے، اس پر عمل کرتے تھے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 43   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6915  
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو چکی پیسنے سے جو ہاتھوں کی تکلیف برداشت کرنی پڑتی تھی۔ (ہاتھوں میں جو نشان پڑگئے) اس کی شکایت کی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی آئے تھے چنانچہ وہ گئیں۔ لیکن آپ مل نہ سکے۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مل کر انہیں اپنی آمد کا مقصد بتایا تو جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ کو آپ کے پاس حضرت فاطمہ کی آمد کا... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:6915]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے حافظ ابن تیمیہ رحمہُ اللہُ نے یہ استنباط کیا ہے،
سوتے وقت اس وظیفہ کی پابندی سے تکان دور ہوتی ہے اور بقول حافظ ابن حجر رحمہُ اللہُ اس وظیفہ کی پابندی کام کاج کی کثرت سے انسان ضرر اور نقصان سے محفوظ ہو جاتا ہے اور محنت و مشقت سے گرانی پیدا نہیں ہوتی اور آخرت میں کام آنے والے عمل زیادہ سود مند ہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6915   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5361  
5361. سیدنا علی بن ابی طالب ؓ سے روایت ہے کہ سیدہ فاطمہ‬ ؓ ن‬بی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور شکایت کی چکی پیسنے کی وجہ سے ان کے ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے ہیں انہں اطلاع ملی تھی کہ آپ ﷺ کے پاس قیدی عورتیں آئی ہوئی ہیں۔ لیکن انہیں آپ سے ملاقات کرنے کا اتفاق نہ ہوا اس لیے سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے ذکر کیا۔ جب آپ ﷺ تشریف لائے تو سیدہ عائشہ‬ ؓ ن‬ے آپ سے اس بات کا تذکرہ کیا۔ سیدنا علی بن ابی طالب ؓ کا بیان ہے کہ آپ ﷺ ہمارے پاس اس وقت تشریف لائے جب ہم اپنے ہستروں میں لیٹ چکے تھے۔ ہم نے اٹھنے کا ارادہ کیا آپ نے فرمایا: تم اپنی جگہ پر رہو۔ چنانچہ آپ میرے اور سیدہ فاطمہ‬ ؓ ک‬ے درمیان بیٹھ گئے حتیٰ کہ میں نے آپ کے قدموں کی ٹھنڈک اپنے پیٹ پر محسوس کی، پھر آپ نے فرمایا: میں تمہیں ایسی بات نہ بتاؤں جو تمہاری طلب کردہ چیز سے بہتر ہو۔ جب تم اپنے بستر ہو جاؤ تو 33 مرتبہ سبحان اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5361]
حدیث حاشیہ:
اللہ تم کو کام کاج کی طاقت دے گا اور خادم کی حاجت نہ رہے گی۔
جب لخت جگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حالت ہے تو دوسری عورتوں کی کیا حقیقت ہے کہ وہ اپنے آپ کو بڑی خاندانی سمجھ کر گھریلو کام کاج کو اپنے لیے عار سمجھیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5361   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5362  
5362. سیدنا علی بن ابی طالب ؓ سے روایت ہے کہ سیدہ فاطمہ‬ ؓ ن‬بی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور آپ سے ایک خادمہ دینے کی درخواست کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں اس سے بہتر کی خبر دوں؟ (وہ یہ ہے کہ) سوتے وقت 33 مرتبہ سبحان اللہ کہو، 33 مرتبہ الحمد اللہ کہو اور 34 مرتبہ اللہ أکبر کہو۔ راوی حدیث سیدنا سفیان کہتے ہیں کہ ان میں سے ایک 34 مرتبہ ہے۔ (سیدنا علی بن ابی طالب ؓ نے فرمایا:) میں نے اس کے بعد ان (تسبیحات) کو کبھی ترک نہیں کیا، کسی نے ان سے پوچھا: صفین کی رات بھی نہیں چھوڑا تھا؟ انہوں نے فرمایا: (میں نے) صفین کی رات بھی ان کی پابندی کی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5362]
حدیث حاشیہ:
صفین وہ جگہ جہاں حضرت علی اور امیر معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کے درمیان جنگ برپا ہوئی تھی۔
حالت جنگ میں بھی آپ نے اس اہم ترین وظیفہ کو ترک نہیں فرمایا۔
وظیفہ کے کامیاب ہونے کی یہی شرط ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5362   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6318  
6318. حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت ہے کہ سیدہ فاطمہ‬ ؓ ک‬و چکی پسینے کی وجہ سے ہاتھوں میں تکلیف کا عارضہ ہوا تو وہ نبی ﷺ کی خدمت میں ایک خادم لینے کے لیے حاضر ہوئیں۔ آپ اس وقت گھر میں موجود نہیں تھے۔ انہوں نے سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے اس کا ذکر کیا۔ جب آپ تشریف لائے تو سیدہ عائشہ‬ ؓ ن‬ے آپ اسے اس کا ذکر کیا۔ (حضرت علی ؓ نے) بیان کیا کہ آپ ﷺ ہمارے گھر تشریف لائے جبکہ ہم اس وقت اپنے بستروں میں لیٹ چکے تھے۔ میں نے اٹھنے کا ارادہ کیا تو آپ نے فرمایا: یوں ہی لیٹے رہو۔ پھر آپ ہمارے درمیان بیٹھ گئے حتٰی کہ میں نے آپ کے قدموں کو ٹھنڈک اپنے سینے میں محسوس کی۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: کیا میں تم دونوں کو وہ چیز نہ تناؤں جو تمہارے لیے خادم سے بہتر ہو؟ جب تم اپنے بستر پر جانے لگو یا سونے کے لیے بستروں میں آؤ تو چونتیس مرتبہ اللہ اکبر، تینتیس مرتبہ سبحان اللہ، اور تینتیس مرتبہ الحمد اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6318]
حدیث حاشیہ:
مسلم کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی شہزادی صاحبہ سے پوچھا میں نے سنا ہے کہ تم مجھ سے ملنے کو آئی تھی لیکن میں نہیں تھا کہو کیا کام ہے؟ انہوں نے عرض کیا حضرت ابا جان میں نے سنا ہے کہ آپ کے پاس لونڈی وغلام آئے ہیں۔
ایک غلام یا لونڈی ہم کو بھی دے دیجئے کیونکہ آٹا پیسنے یا پانی لانے میں مجھ کو سخت مشقت ہو رہی ہے، اس وقت آپ نے یہ وظیفہ بتلایا۔
دوسری روایت میں یوں ہے کہ آپ نے فرمایا صفہ والے لوگ بھوکے ہیں، ان غلاموں کو بیچ کر ان کے کھلا نے کا انتظام کروں گا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6318   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3113  
3113. حضرت علی ؓسے روایت ہے کہ سیدہ فاطمہ ؓ کو چکی پیسنے کی بہت تکلیف ہوئی۔ پھر انھیں معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ قیدی آئے ہیں تو وہ آپ کے پاس خدمت گار لینے کی درخواست لے کر حاضر ہوئیں لیکن آپ سے ملاقات کا اتفاق نہ ہوسکا۔ انھوں نے حضرت عائشہ ؓسے اس کا تذکرہ کیا۔ جب نبی کریم ﷺ نے تشریف لائے تو حضرت عائشہ ؓنے آپ کے سامنے ان کی درخواست پیش کردی۔ (حضرت علی ؓ کہتے ہیں کہ) پھر نبی کریم ﷺ ہمارے پاس اس وقت تشریف لائے جب ہم اپنے بستروں میں جا چکے تھے۔ ہم کھڑے ہونے لگے تو آپ نے فرمایا: اپنے بستروں ہی میں رہو۔ پھر آپ بیٹھ گئے حتیٰ کہ میں نے آپ کے قدموں کی ٹھنڈک اپنے سینے میں پائی۔ آپ نے فرمایا: میں تمھیں اس چیز سے بہتر بات نہ بتاؤں جس کی تم نے درخواست کی تھی؟ جب تم بستر میں جانے کا ارادہ کروتو 34 بار اللہ أکبر، 33بار الحمدللہ اور 33 بار سبحان اللہ پڑھ لیا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3113]
حدیث حاشیہ:
اللہ تم کو ان کلمات کی وجہ سے ایسی طاقت دے گا کہ تم کوخادم کی حاجت نہ رہے گی۔
اپنا کا م آپ کرلوگی۔
بہ ظاہر یہ حدیث ترجمہ باب کے مطابق نہیں ہے لیکن امام بخاری ؒنے اس حدیث کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کیا ہے جسے امام احمد ؒنے نکالا ہے۔
اس میں یوں ہے قسم اللہ کی مجھ سے یوں نہیں ہوسکتا کہ تم کو دوں اور صفہ والوں کو محروم کردوں‘ جن کے پیٹ بھوک کی وجہ سے پیچ کھا رہے ہیں۔
میرے پاس کچھ نہیں ہے جو ان پر خرچ کروں‘ ان قیدیوں کو بیچ کران کی قیمت ان پر خرچ کروں گا۔
اس سے آنحضرت ﷺ کی شان رحمت اس قدر نمایاں ہورہی ہے کہ باربار آپ پر درود شریف پڑھنے کو دل چاہتا ہے۔
(صلی اللہ علیه وسلم)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3113   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3705  
3705. حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے چکی پیسنے کی تکلیف کی شکایت کی۔ اس کے بعد نبی کریم ﷺ پاس قیدی آئے تو وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئیں لیکن اس وقت آپ موجود نہیں تھے، البتہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ان کی ملاقات ہوئی اور ان سے اسکا تذکرہ کیا۔ جب نبی کریم ﷺ تشریف لائے تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے آنے کا مقصد بیان کیا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ اس کے بعد نبی کریم ﷺ ہمارے گھر تشریف لائے جبکہ ہم اپنے بستروں میں لیٹ چکے تھے۔ میں نے بستر سے اٹھنا چاہا تو آپ نے فرمایا: اپنی جگہ لیٹے رہو۔ اس کے بعد آپ ہمارے دونوں کے درمیان بیٹھ گئے حتیٰ کہ میں نے آپ کے قدموں کی ٹھنڈک اپنے سینے میں محسوس کی۔ آپ نے فرمایا: تم لوگوں نے مجھ سے جو مطالبہ کیا ہے میں تمھیں اس سے اچھی بات نہ بتاؤں؟جب تم سونے کے لیے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3705]
حدیث حاشیہ:
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جو شخص سوتے وقت اس حدیث پر عمل کرلیا کرے گا وہ اپنے اندر تھکن محسوس نہیں کرے گا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3705   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3113  
3113. حضرت علی ؓسے روایت ہے کہ سیدہ فاطمہ ؓ کو چکی پیسنے کی بہت تکلیف ہوئی۔ پھر انھیں معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ قیدی آئے ہیں تو وہ آپ کے پاس خدمت گار لینے کی درخواست لے کر حاضر ہوئیں لیکن آپ سے ملاقات کا اتفاق نہ ہوسکا۔ انھوں نے حضرت عائشہ ؓسے اس کا تذکرہ کیا۔ جب نبی کریم ﷺ نے تشریف لائے تو حضرت عائشہ ؓنے آپ کے سامنے ان کی درخواست پیش کردی۔ (حضرت علی ؓ کہتے ہیں کہ) پھر نبی کریم ﷺ ہمارے پاس اس وقت تشریف لائے جب ہم اپنے بستروں میں جا چکے تھے۔ ہم کھڑے ہونے لگے تو آپ نے فرمایا: اپنے بستروں ہی میں رہو۔ پھر آپ بیٹھ گئے حتیٰ کہ میں نے آپ کے قدموں کی ٹھنڈک اپنے سینے میں پائی۔ آپ نے فرمایا: میں تمھیں اس چیز سے بہتر بات نہ بتاؤں جس کی تم نے درخواست کی تھی؟ جب تم بستر میں جانے کا ارادہ کروتو 34 بار اللہ أکبر، 33بار الحمدللہ اور 33 بار سبحان اللہ پڑھ لیا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3113]
حدیث حاشیہ:

قرآن مجید میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے علاوہ خمس کے چار مصرف بیان ہوئے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت دار، یتیم مساکین اور مسافر حضرات۔
یہ خمس کے حقدار نہیں بلکہ مصارف ہیں اور رسول اللہ ﷺ کے لیے یہ ضروری نہیں تھا کہ خمس کو ان تمام مصارف میں خرچ کرتے بلکہ اپنی صوابدید کے مطابق جہاں چاہتے خرچ کرنے کے مجازتھے۔
یہی وجہ ہے کہ آپ نے حضرت فاطمہ ؓ کو خدمت گزار عطا نہیں فرمایا، حالانکہ وہ ضرورت مند تھیں اورقرابت دار بھی تھیں۔
اگرقرابت داری استحقاق کا باعث ہوتی تو رسول اللہ ﷺ انھیں ضرور خادم دیتے۔
اگرچہ اس حدیث میں اہل صفہ کا ذکر نہیں، تاہم امام بخاری ؒنے اس حدیث کے دوسرے طرق کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
اللہ کی قسم! میں ایسا نہیں کرسکتا کہ تمھیں دوں اور اہل صفہ کو نظر انداز کردوں جبکہ ان کے پیٹ بھوک کی وجہ سے کمر سے لگے ہوئے ہیں اور میرے پاس ان پر خرچ کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔
میں ان قیدیوں کو فروخت کرکے ان سے حاصل ہونے والی رقم اہل صفہ پر خرچ کروں گا۔
(مسندأحمد: 106/1)

بہرحال مال غنیمت کے چارحصے تو مجاہدین کے لیے ہیں اور ایک حصہ امام کی صوابدید پر موقوف ہے، وہ اسے جہاں چاہے جیسے خرچ کرسکتا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3113   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3705  
3705. حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے چکی پیسنے کی تکلیف کی شکایت کی۔ اس کے بعد نبی کریم ﷺ پاس قیدی آئے تو وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئیں لیکن اس وقت آپ موجود نہیں تھے، البتہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ان کی ملاقات ہوئی اور ان سے اسکا تذکرہ کیا۔ جب نبی کریم ﷺ تشریف لائے تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے آنے کا مقصد بیان کیا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ اس کے بعد نبی کریم ﷺ ہمارے گھر تشریف لائے جبکہ ہم اپنے بستروں میں لیٹ چکے تھے۔ میں نے بستر سے اٹھنا چاہا تو آپ نے فرمایا: اپنی جگہ لیٹے رہو۔ اس کے بعد آپ ہمارے دونوں کے درمیان بیٹھ گئے حتیٰ کہ میں نے آپ کے قدموں کی ٹھنڈک اپنے سینے میں محسوس کی۔ آپ نے فرمایا: تم لوگوں نے مجھ سے جو مطالبہ کیا ہے میں تمھیں اس سے اچھی بات نہ بتاؤں؟جب تم سونے کے لیے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3705]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث کو مناقب علی میں اس لیے لایا گیا ہے کہ آپ کا مقام اور مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں بہت زیادہ تھا،نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بستر پر جابیٹھے یہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے بہت بڑا اعزاز ہےاور آپ نے جو امرِ آخرت اپنی بیٹی کے لیے پسند فرمایا وہی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے بھی پسند فرمایا،چنانچہ وہ دونوں اس پر راضی ہوگئے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الخمس میں اس حدیث پر ان الفاظ میں عنوان قائم کیا ہے:
آپ نے اہل صفہ اور بیواؤں کو دنیا کے معاملے میں ترجیح دی اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو امرآخرت کے سلسلے میں اللہ کے حوالے کردیا تاکہ وہاں اس کا اجروثواب حاصل کریں۔
(صحیح البخاري، فرض الخمس، باب: 6)

بہرحال اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی لخت جگر اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کس قدر محبت کرتے تھے اور اس کے باوجود آپ نے انھیں دنیا وہ لذتوں سے دور رکھا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3705   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5361  
5361. سیدنا علی بن ابی طالب ؓ سے روایت ہے کہ سیدہ فاطمہ‬ ؓ ن‬بی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور شکایت کی چکی پیسنے کی وجہ سے ان کے ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے ہیں انہں اطلاع ملی تھی کہ آپ ﷺ کے پاس قیدی عورتیں آئی ہوئی ہیں۔ لیکن انہیں آپ سے ملاقات کرنے کا اتفاق نہ ہوا اس لیے سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے ذکر کیا۔ جب آپ ﷺ تشریف لائے تو سیدہ عائشہ‬ ؓ ن‬ے آپ سے اس بات کا تذکرہ کیا۔ سیدنا علی بن ابی طالب ؓ کا بیان ہے کہ آپ ﷺ ہمارے پاس اس وقت تشریف لائے جب ہم اپنے ہستروں میں لیٹ چکے تھے۔ ہم نے اٹھنے کا ارادہ کیا آپ نے فرمایا: تم اپنی جگہ پر رہو۔ چنانچہ آپ میرے اور سیدہ فاطمہ‬ ؓ ک‬ے درمیان بیٹھ گئے حتیٰ کہ میں نے آپ کے قدموں کی ٹھنڈک اپنے پیٹ پر محسوس کی، پھر آپ نے فرمایا: میں تمہیں ایسی بات نہ بتاؤں جو تمہاری طلب کردہ چیز سے بہتر ہو۔ جب تم اپنے بستر ہو جاؤ تو 33 مرتبہ سبحان اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5361]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس عورت کو گھر کے کام کاج روٹی پکانا، صفائی کرنا اور چکی پیسنا وغیرہ کی طاقت ہو اور متعارف ہو کہ وہ یہ کام بآسانی کر سکتی ہے تو شوہر کو اس کے لیے خادمہ کا بندوبست کرنا لازم نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی تکلیف سن کر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نہیں کہا کہ وہ ان کے لیے خادمہ کا بندوبست کریں یا کم از کم یومیہ اجرت پر کسی نوکرانی کو رکھ لیں جو یہ سارے کام کیا کرے۔
(2)
تسبیح و تحمید میں بہت ثواب ہے۔
ممکن ہے کہ وظیفہ کرنے سے اللہ تعالیٰ ایسی طاقت پیدا کر دے کہ خادمہ کی ضرورت ہی نہ رہے اور خادمہ کی نسبت گھر کے کام سر انجام دینے زیادہ آسان ہو جائیں۔
(3)
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لخت جگر کی یہ حالت ہے تو دوسری عورتوں کی کیا حیثیت ہے کہ وہ اپنے آپ کو خاندانی اور معزز خیال کر کے گھریلو کام کو اپنے لیے عار محسوس کریں اور انہیں بجا لانے میں ذلت محسوس کریں۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5361   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5362  
5362. سیدنا علی بن ابی طالب ؓ سے روایت ہے کہ سیدہ فاطمہ‬ ؓ ن‬بی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور آپ سے ایک خادمہ دینے کی درخواست کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں اس سے بہتر کی خبر دوں؟ (وہ یہ ہے کہ) سوتے وقت 33 مرتبہ سبحان اللہ کہو، 33 مرتبہ الحمد اللہ کہو اور 34 مرتبہ اللہ أکبر کہو۔ راوی حدیث سیدنا سفیان کہتے ہیں کہ ان میں سے ایک 34 مرتبہ ہے۔ (سیدنا علی بن ابی طالب ؓ نے فرمایا:) میں نے اس کے بعد ان (تسبیحات) کو کبھی ترک نہیں کیا، کسی نے ان سے پوچھا: صفین کی رات بھی نہیں چھوڑا تھا؟ انہوں نے فرمایا: (میں نے) صفین کی رات بھی ان کی پابندی کی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5362]
حدیث حاشیہ:
(1)
صفین، عراق اور شام کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے جہاں حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کے درمیان سخت معرکہ ہوا تھا۔
(2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خاوند کے ذمے گھریلو کام کاج کے لیے کسی نوکرانی کا بندوبست کرنا ضروری نہیں کیونکہ اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کسی قسم کا مطالبہ نہیں کیا، حالانکہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا گھریلو کام کاج کی وجہ سے سخت تکلیف میں تھیں۔
اگر یہ امر واجب ہوتا تو آپ ضرور حکم دیتے۔
آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے حق مہر کے متعلق ضرور کہا تھا کہ وہ پہلے ادا کر دیں، حالانکہ اسے مؤخر بھی کیا جا سکتا تھا بشرطیکہ بیوی رضا مند ہو۔
لیکن اگر خادم کا بندوبست کرنا خاوند کے ذمے ہوتا تو آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اس کا ضرور مطالبہ کرتے۔
(3)
گھریلو کام کاج کرنا عورت کی ذمہ داری ہے جبکہ گھر سے باہر کی خدمات خاوند کے ذمے ہیں، ہاں اگر عورت کمزور ہے اور وہ گھر کا کام نہیں کر سکتی تو خاوند کو چاہیے کہ وہ اس کا بندوبست کرے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ان عورتوں سے حسن معاشرت کا مظاہرہ کرو۔
(النساء: 4/19)
اگر کوئی خاوند ضرورت کے باوجود گھر کا نظام چلانے کے لیے کوئی بدوبست نہیں کرتا تو گویا وہ حسن معاشرت سے راہ فرار اختیار کرتا ہے۔
اس واقعے سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ گھر کے داخلی امور بیوی کے ذمے ہیں اور بیرونی معاملات و خدمات کی بجا آوری خاوند کی ڈیوٹی ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5362   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6318  
6318. حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت ہے کہ سیدہ فاطمہ‬ ؓ ک‬و چکی پسینے کی وجہ سے ہاتھوں میں تکلیف کا عارضہ ہوا تو وہ نبی ﷺ کی خدمت میں ایک خادم لینے کے لیے حاضر ہوئیں۔ آپ اس وقت گھر میں موجود نہیں تھے۔ انہوں نے سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے اس کا ذکر کیا۔ جب آپ تشریف لائے تو سیدہ عائشہ‬ ؓ ن‬ے آپ اسے اس کا ذکر کیا۔ (حضرت علی ؓ نے) بیان کیا کہ آپ ﷺ ہمارے گھر تشریف لائے جبکہ ہم اس وقت اپنے بستروں میں لیٹ چکے تھے۔ میں نے اٹھنے کا ارادہ کیا تو آپ نے فرمایا: یوں ہی لیٹے رہو۔ پھر آپ ہمارے درمیان بیٹھ گئے حتٰی کہ میں نے آپ کے قدموں کو ٹھنڈک اپنے سینے میں محسوس کی۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: کیا میں تم دونوں کو وہ چیز نہ تناؤں جو تمہارے لیے خادم سے بہتر ہو؟ جب تم اپنے بستر پر جانے لگو یا سونے کے لیے بستروں میں آؤ تو چونتیس مرتبہ اللہ اکبر، تینتیس مرتبہ سبحان اللہ، اور تینتیس مرتبہ الحمد اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6318]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ ایک مسلمان بیوی اس امر کی پابند ہے کہ وہ شوہر کی خدمت کے علاوہ گھر کے تمام کام سر انجام دے جیسا کہ سیدات اہل بیت، عام مسلمانوں کی خواتین حتی کہ امہات المومنین اپنے اپنے گھروں میں گھر داری کے تمام کام کرتی تھیں، اس لیے بعض فقہاء کا یہ کہنا کہ بیوی پر اپنے شوہر کی دلداری کے علاوہ کچھ واجب نہیں محض بے اصل اور بے بنیاد بات ہے۔
ایک دوسرے واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ سیدات کو یہ وظیفہ فرض نماز کے بعد پڑھنے کی تلقین کی تھی۔
(سنن أبي داود، الخراج، حدیث: 2987) (2)
یہ وظیفہ "تسبیح فاطمہ" کے نام سے مشہور ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کی خوب خوب پابندی کی حتی کہ صفین کی رات جس میں وہ انتہائی مصروف تھے، اس میں بھی انہوں نے اسے پڑھا جیسا کہ ایک روایت میں ہے۔
(صحیح البخاري، النفقات، حدیث: 5362)
البتہ مصروفیت کی وجہ سے رات کے پہلے حصے میں پڑھنے کے بجائے آخری حصے میں اسے پڑھا۔
(سنن أبي داود، الأدب، حدیث: 5064)
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا:
بیٹی! اہل صفہ کی فاقہ کشی مجھ سے برداشت نہیں ہوتی۔
وہ اکثر بھوکے رہتے ہیں۔
میں ان غلاموں کو بیچ کر ان کے کھانے کا بندوبست کرنا چاہتا ہوں۔
(مسند أحمد: 106/1)
دوسری حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا:
شہدائے بدر کے یتیم بچے تم سے پہلے لے چکے ہیں، میں انہیں دوں گا، ان کا زیادہ حق ہے۔
(سنن أبي داود، الخراج، حدیث: 2987) (3)
ہمارے ہاں سرکاری افسران میں اقربا پروری کا رجحان ہے، اس حدیث سے ان حضرات کی خوب خوب تردید ہوتی ہے۔
واللہ المستعان
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6318   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.