(مرفوع) حدثنا محمد بن عبيد، ان محمد بن ثور حدثهم، عن معمر، عن الزهري، عن عروة بن الزبير، عن المسور بن مخرمة، قال: خرج النبي صلى الله عليه وسلم زمن الحديبية في بضع عشرة مائة من اصحابه حتى إذا كانوا بذي الحليفة قلد الهدي واشعره واحرم بالعمرة وساق الحديث قال: وسار النبي صلى الله عليه وسلم حتى إذا كان بالثنية التي يهبط عليهم منها بركت به راحلته فقال الناس: حل حل خلات القصواء مرتين، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" ما خلات وما ذلك لها بخلق ولكن حبسها حابس الفيل، ثم قال: والذي نفسي بيده لا يسالوني اليوم خطة يعظمون بها حرمات الله إلا اعطيتهم إياها، ثم زجرها فوثبت فعدل عنهم حتى نزل باقصى الحديبية على ثمد قليل الماء، فجاءه بديل بن ورقاء الخزاعي، ثم اتاه يعني عروة بن مسعود، فجعل يكلم النبي صلى الله عليه وسلم فكلما كلمه اخذ بلحيته والمغيرة بن شعبة قائم على النبي صلى الله عليه وسلم ومعه السيف، وعليه المغفر، فضرب يده بنعل السيف، وقال: اخر يدك عن لحيته فرفع عروة راسه فقال: من هذا؟ قالوا: المغيرة بن شعبة، فقال: اي غدر اولست اسعى في غدرتك، وكان المغيرة صحب قوما في الجاهلية فقتلهم واخذ اموالهم، ثم جاء فاسلم فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" اما الإسلام فقد قبلنا، واما المال فإنه مال غدر لا حاجة لنا فيه فذكر الحديث، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: اكتب هذا ما قاضى عليه محمد رسول الله، وقص الخبر فقال سهيل، وعلى: انه لا ياتيك منا رجل وإن كان على دينك إلا رددته إلينا، فلما فرغ من قضية الكتاب قال النبي صلى الله عليه وسلم لاصحابه: قوموا فانحروا، ثم احلقوا، ثم جاء نسوة مؤمنات مهاجرات الآية، فنهاهم الله ان يردوهن وامرهم ان يردوا الصداق، ثم رجع إلى المدينة فجاءه ابو بصير رجل من قريش يعني فارسلوا في طلبه فدفعه إلى الرجلين فخرجا به حتى إذ بلغا ذا الحليفة نزلوا ياكلون من تمر لهم، فقال ابو بصير لاحد الرجلين: والله إني لارى سيفك هذا يا فلان جيدا، فاستله الآخر فقال: اجل قد جربت به فقال ابو بصير: ارني انظر إليه فامكنه منه فضربه حتى برد وفر الآخر حتى اتى المدينة فدخل المسجد يعدو، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: لقد راى هذا ذعرا فقال: قد قتل والله صاحبي وإني لمقتول، فجاء ابو بصير فقال: قد اوفى الله ذمتك فقد رددتني إليهم، ثم نجاني الله منهم فقال النبي صلى الله عليه وسلم: ويل امه مسعر حرب لو كان له احد فلما سمع ذلك عرف انه سيرده إليهم، فخرج حتى اتى سيف البحر وينفلت ابو جندل، فلحق بابي بصير حتى اجتمعت منهم عصابة". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ ثَوْرٍ حدَّثَهُمْ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ، قَالَ: خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَمَنَ الْحُدَيْبِيَةِ فِي بِضْعَ عَشْرَةَ مِائَةً مِنْ أَصْحَابِهِ حَتَّى إِذَا كَانُوا بِذِي الْحُلَيْفَةِ قَلَّدَ الْهَدْيَ وَأَشْعَرَهُ وَأَحْرَمَ بِالْعُمْرَةِ وَسَاقَ الْحَدِيثَ قَالَ: وَسَارَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا كَانَ بِالثَّنِيَّةِ الَّتِي يُهْبِطُ عَلَيْهِمْ مِنْهَا بَرَكَتْ بِهِ رَاحِلَتُهُ فَقَالَ النَّاسُ: حَلْ حَلْ خَلَأَتِ الْقَصْوَاءُ مَرَّتَيْنِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا خَلَأَتْ وَمَا ذَلِكَ لَهَا بِخُلُقٍ وَلَكِنْ حَبَسَهَا حَابِسُ الْفِيلِ، ثُمَّ قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا يَسْأَلُونِي الْيَوْمَ خُطَّةً يُعَظِّمُونَ بِهَا حُرُمَاتِ اللَّهِ إِلَّا أَعْطَيْتُهُمْ إِيَّاهَا، ثُمَّ زَجَرَهَا فَوَثَبَتْ فَعَدَلَ عَنْهُمْ حَتَّى نَزَلَ بِأَقْصَى الْحُدَيْبِيَةِ عَلَى ثَمَدٍ قَلِيلِ الْمَاءِ، فَجَاءَهُ بُدَيْلُ بْنُ وَرْقَاءَ الْخُزَاعِيُّ، ثُمَّ أَتَاهُ يَعْنِي عُرْوَةَ بْنَ مَسْعُودٍ، فَجَعَلَ يُكَلِّمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكُلَّمَا كَلَّمَهُ أَخَذَ بِلِحْيَتِهِ والْمُغِيَرةُ بْنُ شُعْبَةَ قَائِمٌ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ السَّيْفُ، وَعَلَيْهِ الْمِغْفَرُ، فَضَرَبَ يَدَهُ بِنَعْلِ السَّيْفِ، وَقَالَ: أَخِّرْ يَدَكَ عَنْ لِحْيَتِهِ فَرَفَعَ عُرْوَةُ رَأْسَهُ فَقَالَ: مَنْ هَذَا؟ قَالُوا: الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ، فَقَالَ: أَيْ غُدَرُ أَوَلَسْتُ أَسْعَى فِي غَدْرَتِكَ، وَكَانَ الْمُغِيرَةُ صَحِبَ قَوْمًا فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَقَتَلَهُمْ وَأَخَذَ أَمْوَالَهُمْ، ثُمَّ جَاءَ فَأَسْلَمَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمَّا الْإِسْلَامُ فَقَدْ قَبِلْنَا، وَأَمَّا الْمَالُ فَإِنَّهُ مَالُ غَدْرٍ لَا حَاجَةَ لَنَا فِيهِ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اكْتُبْ هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ، وَقَصَّ الْخَبَرَ فَقَالَ سُهَيْلٌ، وَعَلَى: أَنَّهُ لَا يَأْتِيكَ مِنَّا رَجُلٌ وَإِنْ كَانَ عَلَى دِينِكَ إِلَّا رَدَدْتَهُ إِلَيْنَا، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قَضِيَّةِ الْكِتَابِ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِهِ: قُومُوا فَانْحَرُوا، ثُمَّ احْلِقُوا، ثُمَّ جَاءَ نِسْوَةٌ مُؤْمِنَاتٌ مُهَاجِرَاتٌ الْآيَةَ، فَنَهَاهُمُ اللَّهُ أَنْ يَرُدُّوهُنَّ وَأَمَرَهُمْ أَنْ يَرُدُّوا الصَّدَاقَ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى الْمَدِينَةِ فَجَاءَهُ أَبُو بَصِيرٍ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ يَعْنِي فَأَرْسَلُوا فِي طَلَبِهِ فَدَفَعَهُ إِلَى الرَّجُلَيْنِ فَخَرَجَا بِهِ حَتَّى إِذْ بَلَغَا ذَا الْحُلَيْفَةِ نَزَلُوا يَأْكُلُونَ مِنْ تَمْرٍ لَهُمْ، فَقَالَ أَبُو بَصِيرٍ لِأَحَدِ الرَّجُلَيْنِ: وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَى سَيْفَكَ هَذَا يَا فُلَانُ جَيِّدًا، فَاسْتَلَّهُ الْآخَرُ فَقَالَ: أَجَلْ قَدْ جَرَّبْتُ بِهِ فَقَالَ أَبُو بَصِيرٍ: أَرِنِي أَنْظُرْ إِلَيْهِ فَأَمْكَنَهُ مِنْهُ فَضَرَبَهُ حَتَّى بَرَدَ وَفَرَّ الْآخَرُ حَتَّى أَتَى الْمَدِينَةَ فَدَخَلَ الْمَسجِدَ يَعْدُو، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَقَدْ رَأَى هَذَا ذُعْرًا فَقَالَ: قَدْ قُتِلَ وَاللَّهِ صَاحِبِي وَإِنِّي لَمَقْتُولٌ، فَجَاءَ أَبُو بَصِيرٍ فَقَالَ: قَدْ أَوْفَى اللَّهُ ذِمَّتَكَ فَقَدْ رَدَدْتَنِي إِلَيْهِمْ، ثُمَّ نَجَّانِي اللَّهُ مِنْهُمْ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَيْلَ أُمِّهِ مِسْعَرَ حَرْبٍ لَوْ كَانَ لَهُ أَحَدٌ فَلَمَّا سَمِعَ ذَلِكَ عَرَفَ أَنَّهُ سَيَرُدُّهُ إِلَيْهِمْ، فَخَرَجَ حَتَّى أَتَى سَيْفَ الْبَحْرِ وَيَنْفَلِتُ أَبُو جَنْدَلٍ، فَلَحِقَ بِأَبِي بَصِيرٍ حَتَّى اجْتَمَعَتْ مِنْهُمْ عِصَابَةٌ".
مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ کے سال ایک ہزار سے زائد صحابہ کے ہمراہ نکلے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحلیفہ پہنچے تو ہدی کو قلادہ پہنایا، اور اشعار کیا، اور عمرہ کا احرام باندھا، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی، اس میں ہے: اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے چلے یہاں تک کہ جب ثنیہ میں جہاں سے مکہ میں اترتے ہیں پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی آپ کو لے کر بیٹھ گئی، لوگوں نے کہا: ”حل حل“۱؎ قصواء اڑ گئی، قصواء اڑ گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قصواء اڑی نہیں اور نہ ہی اس کو اڑنے کی عادت ہے، لیکن اس کو ہاتھی کے روکنے والے نے روک دیا ہے“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے قریش جو چیز بھی مجھ سے طلب کریں گے جس میں اللہ کے حرمات کی تعظیم ہوتی ہو تو وہ میں ان کو دوں گا“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹنی کو ڈانٹ کر اٹھایا تو وہ اٹھی اور آپ ایک طرف ہوئے یہاں تک کہ میدان حدیبیہ کے آخری سرے پر ایک جگہ جہاں تھوڑا سا پانی تھا جا اترے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بدیل بن ورقاء خزاعی آیا، پھر وہ یعنی عروہ بن مسعود ثقفی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ سے گفتگو کرنے لگا، گفتگو میں عروہ باربار آپ کی ریش مبارک کو ہاتھ لگاتا، مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے تھے، وہ تلوار لیے ہوئے اور زرہ پہنے ہوئے تھے، انہوں نے عروہ کے ہاتھ پر تلوار کی کاٹھی ماری اور کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی سے اپنا ہاتھ دور رکھ، تو عروہ نے اپنا سر اٹھایا اور پوچھا: یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا: مغیرہ بن شعبہ ہیں، اس پر عروہ نے کہا: اے بدعہد! کیا میں نے تیری عہد شکنی کی اصلاح میں سعی نہیں کی؟ اور وہ واقعہ یوں ہے کہ مغیرہ رضی اللہ عنہ نے زمانہ جاہلیت میں چند لوگوں کو اپنے ساتھ لیا تھا، پھر ان کو قتل کیا اور ان کے مال لوٹے ۲؎ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر مسلمان ہو گئے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رہا اسلام تو ہم نے اسے قبول کیا، اور رہا مال تو ہمیں اس کی ضرورت نہیں“۳؎ اس کے بعد مسور رضی اللہ عنہ نے آخر تک حدیث بیان کی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لکھو، یہ وہ صلح نامہ ہے جس پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصالحت کی ہے“، پھر پورا قصہ بیان کیا۔ سہیل نے کہا: اور اس بات پر بھی کہ جو کوئی قریش میں سے آپ کے پاس آئے گا گو وہ مسلمان ہو کر آیا ہو تو آپ اسے ہماری طرف واپس کر دیں گے، پھر جب آپ صلح نامہ لکھا کر فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا: ”اٹھو اور اونٹ نحر (ذبح) کرو، پھر سر منڈا ڈالو“، پھر مکہ کی کچھ عورتیں مسلمان ہو کر مسلمانوں کے پاس ہجرت کر کے آئیں، اللہ تعالیٰ نے ان کو واپس کر دینے سے منع فرمایا اور حکم دیا کہ جو مہر ان کے کافر شوہروں نے انہیں دیا تھا انہیں واپس کر دیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ واپس آئے تو ایک شخص قریش میں سے جس کا نام ابوبصیر تھا، آپ کے پاس مسلمان ہو کر آ گیا، قریش نے اس کو واپس لانے کے لیے دو آدمی بھیجے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبصیر کو ان کے حوالہ کر دیا، وہ ابوبصیر کو ساتھ لے کر نکلے، جب وہ ذوالحلیفہ پہنچے تو اتر کر اپنی کھجوریں کھانے لگے، ابوبصیر نے ان دونوں میں سے ایک کی تلوار دیکھ کر کہا: اللہ کی قسم! تمہاری تلوار بہت ہی عمدہ ہے، اس نے میان سے نکال کر کہا: ہاں میں اس کو آزما چکا ہوں، ابوبصیر نے کہا: مجھے دکھاؤ ذرا میں بھی تو دیکھوں، اس قریشی نے اس تلوار کو ابوبصیر کے ہاتھ میں دے دی، تو انہوں نے (اسی تلوار سے) اسے مارا یہاں تک کہ وہ ٹھنڈا ہو گیا، (یہ دیکھ کر) دوسرا ساتھی بھاگ کھڑا ہوا یہاں تک کہ وہ مدینہ واپس آ گیا اور دوڑتے ہوئے مسجد میں جا گھسا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ ڈر گیا ہے“، وہ بولا: قسم اللہ کی! میرا ساتھی مارا گیا اور میں بھی مارا جاؤں گا، اتنے میں ابوبصیر آ پہنچے اور بولے: اللہ کے رسول! آپ نے اپنا عہد پورا کیا، مجھے کافروں کے حوالہ کر دیا، پھر اللہ نے مجھے ان سے نجات دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تباہی ہو اس کی ماں کے لیے، عجب لڑائی کو بھڑکانے والا ہے، اگر اس کا کوئی ساتھی ہوتا“، ابوبصیر نے جب یہ سنا تو سمجھ گئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر انہیں ان کے حوالہ کر دیں گے، چنانچہ وہ وہاں سے نکل کھڑے ہوئے اور سمندر کے کنارے پر آ گئے اور (ابوجندل جو صلح کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تھے لیکن آپ نے انہیں واپس کر دیا تھا) کافروں کی قید سے اپنے آپ کو چھڑا کر ابوبصیر سے آ ملے یہاں تک کہ وہاں ان کی ایک جماعت بن گئی۔
وضاحت: ۱؎: ”حل حل“: یہ کلمہ اس وقت کہا جاتا ہے جب اونٹنی رک جائے اور چلنا چھوڑ دے۔ ۲؎: اصل واقعہ یہ ہے کہ بنو مالک کی شاخ ثقیف کے تیرہ لوگوں کے ساتھ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ مقوقس مصر کی زیارت کے لئے نکلے تھے واپسی میں مقوقس مصر نے ان لوگوں کو خوب خوب ہدایا و تحائف دئیے لیکن مغیرہ رضی اللہ عنہ کو کم نوازا جس کی وجہ سے انہیں غیرت آ گئی، راستے میں ان لوگوں نے ایک جگہ پڑاؤ ڈالا اور شراب اس قدر پی کہ سب مدہوش ہو گئے، مغیرہ رضی اللہ عنہ کو اچھا موقع ہاتھ آیا انہوں نے سب کو قتل کر دیا اور سب کے سامان لے لئے، بعد میں مقتولین کے ورثاء نے عروہ بن مسعود ثقفی سے جھگڑا کیا کیونکہ مغیرہ رضی اللہ عنہ ان کے بھتیجے تھے بمشکل عروہ نے ان سب کو دیت پر راضی کرکے فیصلہ کرایا، اسی احسان کی طرف عروہ نے اشارہ کیا ہے۔ ۳؎: کیونکہ یہ مکر اور فریب سے حاصل ہوا ہے۔
Al Miswar bin Makhramah said: The Messenger of Allah ﷺ came out in the year of al-Hudaibbiyyah with over ten hundreds of Companions and when he came to Dhu al Hulaifah. He garlanded and marked the sacrificial animals, and entered the sacred state of Umrah. He then went on with the tradition. The Prophet moved on and when he came to the mountain, pass by which one descends (to Makkah) to them, his riding-beast knelt down, and the people said twice: Go on, go on, al-Qaswa has become jaded. The Prophet ﷺ said: She has not become jaded and that is not a characteristic of hers, but He Who restrained the elephant has restrained her. He then said: By Him in Whose hand my soul is, they will not ask any me good thing by which they honor which God has made sacred without my giving them it. He then urged her and she leaped up and he turned aside from them, and stopped at the farthest side of al-Hudaibiyyah at a pool with little water. Meanwhile Budail bin Warqa al-Khuza’I came, and Urwah bin Masud joined him. He began to speak to the Prophet ﷺ. Whenever he spoke to the Prophet ﷺ, he caught his beard. Al Mughriah bin Shubah was standing beside the Prophet ﷺ. He had a sword with him, wearing a helmet. He (Al Mughriah) struck his (Urwah’s) hand with the lower end of his sheath, and said: Keep away your hand from his beard. Urwah then raised his hand and asked: Who is this? They replied: Al-Mughirah bin Shubah. He said: O treacherous one! Did I not use my offices in your treachery? In pre-Islamic days Al-Mughirah bin Shubah accompanied some people and murdered them, and took their property. He then came (to the Prophet) and embraced Islam. The Prophet ﷺ said: As for Islam we accepted it, but as to the property, as it has been taken by treachery, we have no need of it. He went on with the tradition the Prophet ﷺ said: Write down: This is what Muhammad, the Messenger of Allah, has decided. He then narrated the tradition. Suhail then said: And that a man will not come to you from us, even if he follows your religion, without you sending him back to us. When he finished drawing up the document, the Prophet ﷺ said to his Companions: Get up and sacrifice and then shave. Thereafter some believing women who were immigrants came. (Allah sent down: O yea who believe, when believing women come to you as emigrants). Allah most high forbade them to send them back, but ordered them to restore the dower. He then returned to Madina. Abu Basir a man from the Quraish (who was a Muslim), came to him. And they sent (two men) to look for him; so he handed him over to the two men. They took him away, and when they reached Dhu Al Hulaifah and alighted to eat some dates which they had, Abu Basir said to one of the men: I swear by Allah so-and-so, that I think this sword of yours is a fine one; the other drew the sword and said: Yes I have tried it. Abu Basir said: Let me look at it. He let him have it and he struck him till he died, whereupon the other fled and came to Madina, and running entered the mosque. The Prophet ﷺ said: This man has seen something frightful. He said: I swear by Allah that my Companion has been killed, and im as good as dead. Abu Basir then arrived and said: Allah has fulfilled your covenant. You returned me to them, but Allah saved me from them. The Prophet ﷺ said: Woe to his mother, stirrer up of war! Would that he had someone (i. e. some kinsfolk). When he heard that he knew that he would send him back to them, so he went out and came to the seashore. Abu Jandal escaped and joined Abu Basir till a band of them collected.
USC-MSA web (English) Reference: Book 14 , Number 2759
عروہ بن زیبر سے روایت ہے کہ مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ اور مروان بن حکم نے اس بات پر صلح کی کہ دس برس تک لڑائی بند رہے گی، اس مدت میں لوگ امن سے رہیں گے، طرفین کے دل ایک دوسرے کے بارے میں صاف رہیں گے ۱؎ اور نہ اعلانیہ لوٹ مار ہو گی نہ چوری چھپے ۲؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، وانظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 11253) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: حدیث میں «عیبہ» کا لفظ آیا ہے، جس کے معنی ایسی تھیلی یا گٹھری کے ہیں جس میں عمدہ کپڑے رکھے جاتے ہیں، یہاں دل کو «عیبہ» سے تشبیہ دی اور «مکفوفہ» کے معنی بندھے ہوئے کے ہیں، یعنی ہمارے درمیان کپڑوں کا صندوق بند رہے گا، یعنی ہمارا دل ہر طرح کے مکر و فساد، کینے اور بدعہدی سے پاک ہو گا، عہد کی محافظت و پاسداری کی جائے گی اور دونوں طرف سے اب تک جو باتیں ہوئی ہیں انہیں لپیٹ کر رکھ دیا جائے گا کسی کی طرف سے کوئی مواخذہ نہیں ہو گا۔ ۲؎: بعض لوگوں کے یہاں حدیث میں وارد «إسلال» سے مراد تلواریں نکالنا ہے، اور «إغلال» سے مراد زرہ پہننا ہے، اور «لا إسلال ولا إغلال» کے معنی ہیں جنگ نہیں کریں گے۔
Al Miswar bin Makhramah and Marwan bin Al Hakam said “They agreed to abandon war for ten years during which the people which have security on the basis that there should be sincerity between them and that there should be not theft or treachery.
USC-MSA web (English) Reference: Book 14 , Number 2760
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن محمد النفيلي، حدثنا عيسى بن يونس، حدثنا الاوزاعي، عن حسان بن عطية، قال: مال مكحول، وابن ابي زكرياء، إلى خالد بن معدان وملت معهما، فحدثنا عن جبير بن نفير، قال: قال جبير انطلق بنا إلى ذي مخبر رجل من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، فاتيناه فساله جبير عن الهدنة فقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" ستصالحون الروم صلحا آمنا وتغزون انتم وهم عدوا من ورائكم". (مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، عَنْ حَسَّانَ بْنِ عَطِيَّةَ، قَالَ: مَالَ مَكْحُولٌ، وَابْنُ أَبِي زَكَرِيَّاءَ، إِلَى خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ وَمِلْتُ مَعَهُمَا، فَحَدَّثَنَا عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، قَالَ: قَالَ جُبَيْرٌ انْطَلِقْ بِنَا إِلَى ذِي مِخْبَر رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَيْنَاهُ فَسَأَلَهُ جُبَيْرٌ عَنِ الْهُدْنَةِ فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" سَتُصَالِحُونَ الرُّومَ صُلْحًا آمِنًا وَتَغْزُونَ أَنْتُمْ وَهُمْ عَدُوًّا مِنْ وَرَائِكُمْ".
حسان بن عطیہ کہتے ہیں کہ مکحول اور ابن ابی زکریا خالد بن معدان کی طرف مڑے اور میں بھی ان کے ساتھ مڑا تو انہوں نے ہم سے جبیر بن نفیر کے واسطہ سے بیان کیا وہ کہتے ہیں: جبیر نے (مجھ سے) کہا: ہمیں ذومخبر رضی اللہ عنہ جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے ہیں کے پاس لے چلو، چنانچہ ہم ان کے پاس آئے جبیر نے ان سے صلح کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”قریب ہے کہ تم روم سے ایسی صلح کرو گے کہ کوئی خوف نہ رہے گا، پھر تم اور وہ مل کر ایک اور دشمن سے لڑو گے“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الفتن 35 (4089)، (تحفة الأشراف: 3547)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/91، 5/409) ویأتی عند المؤلف فی الملاحم برقم (4293) (صحیح)»
Narrated Dhu Mikhbar: Hassan ibn Atiyyah said: Makhul and Ibn Zakariyya went to Khalid ibn Madan, and I also went along with them. He reported a tradition on the authority of Jubayr ibn Nufayr. He said: Go with us to Dhu Mikhbar, a man from the Companions of the Prophet ﷺ. We came to him and Jubayr asked him about peace. He said: I heard the Messenger of Allah ﷺ say: You will make a secure peace with the Byzantines, then you and they will fight an enemy behind you.
USC-MSA web (English) Reference: Book 14 , Number 2761