سنن ابي داود
كِتَاب الْجِهَادِ
کتاب: جہاد کے مسائل
168. باب فِي صُلْحِ الْعَدُوِّ
باب: دشمن سے صلح کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2766
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ إِسْحَاق، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ، وَمَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ، أنهم اصطلحوا على وضع الحرب عشر سنين، يأمن فيهن الناس وعلى أن بيننا عيبة مكفوفة وأنه لا إسلال ولا إغلال.
عروہ بن زیبر سے روایت ہے کہ مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ اور مروان بن حکم نے اس بات پر صلح کی کہ دس برس تک لڑائی بند رہے گی، اس مدت میں لوگ امن سے رہیں گے، طرفین کے دل ایک دوسرے کے بارے میں صاف رہیں گے ۱؎ اور نہ اعلانیہ لوٹ مار ہو گی نہ چوری چھپے ۲؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، وانظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 11253) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: حدیث میں «عیبہ» کا لفظ آیا ہے، جس کے معنی ایسی تھیلی یا گٹھری کے ہیں جس میں عمدہ کپڑے رکھے جاتے ہیں، یہاں دل کو «عیبہ» سے تشبیہ دی اور «مکفوفہ» کے معنی بندھے ہوئے کے ہیں، یعنی ہمارے درمیان کپڑوں کا صندوق بند رہے گا، یعنی ہمارا دل ہر طرح کے مکر و فساد، کینے اور بدعہدی سے پاک ہو گا، عہد کی محافظت و پاسداری کی جائے گی اور دونوں طرف سے اب تک جو باتیں ہوئی ہیں انہیں لپیٹ کر رکھ دیا جائے گا کسی کی طرف سے کوئی مواخذہ نہیں ہو گا۔
۲؎: بعض لوگوں کے یہاں حدیث میں وارد «إسلال» سے مراد تلواریں نکالنا ہے، اور «إغلال» سے مراد زرہ پہننا ہے، اور «لا إسلال ولا إغلال» کے معنی ہیں جنگ نہیں کریں گے۔
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: حسن
مشكوة المصابيح (4046)
انظر الحديث السابق (2765)
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 2766 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2766
فوائد ومسائل:
عیبة وہ گٹھڑی ہوتی ہے۔
جس میں خاص مال اور خاص کپڑے سنھبال کررکھے جاتے ہیں۔
چونکہ دل بھی عہد وپیمان کا مخزن ہوتا ہے۔
اس لئے اس کو عیبہ سے تشبیہ دی گئی ہے۔
مکفوفہ بندھی ہوئی تھیلی۔
اسلال کا ایک ترجمہ یہ بھی ہے کہ تلواریں نہیں نکالی جایئں گی اور اغلال سے مراد ہے کہ زرہیں نہیں پہنی جایئں گی مقصد یہ کہ کسی طرح جنگ نہیں کی جائے گی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2766