كِتَاب الْجِهَادِ کتاب: جہاد کے مسائل 158. باب فِيمَنْ قَالَ الْخُمُسُ قَبْلَ النَّفْلِ باب: مال غنیمت میں سے نفل (انعام) دینے سے پہلے خمس (پانچویں حصہ) نکالا جائے اس کے قائلین کی دلیل کا بیان۔
حبیب بن مسلمہ فہری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (مال غنیمت میں سے) خمس (پانچواں حصہ) نکالنے کے بعد ثلث (ایک تہائی) بطور نفل (انعام) دیتے تھے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الجھاد 35 (2851)، (تحفة الأشراف: 3293)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/159،160)، سنن الدارمی/السیر 43 (2526) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی پہلے کل مال میں سے خمس (پانچواں حصہ) نکال لیتے پھر باقی میں سے ایک تہائی انعام میں دیتے اور دو تہائی بانٹ دیتے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
حبیب بن مسلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خمس نکالنے کے بعد ربع (ایک چوتھائی) بطور نفل دیتے تھے (ابتداء جہاد میں) اور جب جہاد سے لوٹ آتے (اور پھر ان میں سے کوئی گروہ کفار سے لڑتا) تو خمس نکالنے کے بعد ایک تہائی بطور نفل دیتے۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 3293) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
مکحول کہتے ہیں میں مصر میں قبیلہ بنو ہذیل کی ایک عورت کا غلام تھا، اس نے مجھے آزاد کر دیا، تو میں مصر سے اس وقت تک نہیں نکلا جب تک کہ اپنے خیال کے مطابق جتنا علم وہاں تھا اسے حاصل نہ کر لیا، پھر میں حجاز آیا تو وہاں سے بھی اس وقت تک نہیں نکلا جب تک کہ جتنا علم وہاں تھا اپنے خیال کے مطابق حاصل نہیں کر لیا، پھر عراق آیا تو وہاں سے بھی اس وقت تک نہیں نکلا جب تک کہ اپنے خیال کے مطابق جتنا علم وہاں تھا اسے حاصل نہ کر لیا، پھر میں شام آیا تو اسے بھی اچھی طرح چھان مارا، ہر شخص سے میں نفل کا حال پوچھتا تھا، میں نے کسی کو نہیں پایا جو اس سلسلہ میں کوئی حدیث بیان کرے، یہاں تک کہ میں ایک شیخ سے ملا جن کا نام زیاد بن جاریہ تمیمی تھا، میں نے ان سے پوچھا: کیا آپ نے نفل کے بارے میں کچھ سنا ہے؟ کہا: ہاں! میں نے حبیب بن مسلمہ فہری رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاضر تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتداء میں ایک چوتھائی بطور نفل دیا اور لوٹ آنے کے بعد (پھر حملہ کرنے پر) ۱؎ ایک تہائی بطور نفل دیا۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: (2748)، (تحفة الأشراف: 3293) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس لئے کہ لوٹ آنے کے بعد پھر لڑنے کے لئے جانا سخت اور دشوار عمل ہے کیونکہ دشمن چوکنا اور محتاط ہو جاتا ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|