ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”امام بحیثیت ڈھال کے ہے اسی کی رائے سے لڑائی کی جاتی ہے (تو اسی کی رائے پر صلح بھی ہو گی)“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: امام اور امیر کی قیادت میں عام شہری اس کے حکم اور اس کی رائے اور اس کی طرف سے دشمن سے کیے گئے معاہدوں کے مطابق زندگی گزارتے ہیں، ایسی صورت میں امام رعایا کے لیے ڈھال ہوتا ہے، جس کے ذریعے سے لوگ نقصانات سے محفوظ رہتے ہیں، جیسے ڈھال کے ذریعے آدمی دشمن کے وارسے محفوظ رہتا ہے،امام اور دشمن کے درمیان جو بات صلح اور اتفاق سے طے ہو جاتی ہے، اس کے مطابق دونوں فریق اپنے مسائل حل کرتے ہیں، تو امام کے معاہدہ کے نتیجے میں لوگ دشمن کی ایذا سے محفوظ رہتے ہیں، اس لیے امام اور حاکم کی حیثیت امن اور جنگ میں ڈھال کی ہے، جس سے رعایا فوائد حاصل کرتی ہے، اور دشمن کے شر سے محفوظ رہتی ہے۔
(مرفوع) حدثنا احمد بن صالح، حدثنا عبد الله بن وهب، اخبرني عمرو، عن بكير بن الاشج، عن الحسن بن علي بن ابي رافع، ان ابا رافع اخبره، قال: بعثتني قريش إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم القي في قلبي الإسلام فقلت: يا رسول الله إني والله لا ارجع إليهم ابدا فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إني لا اخيس بالعهد ولا احبس البرد، ولكن ارجع فإن كان في نفسك الذي في نفسك الآن فارجع"، قال: فذهبت ثم اتيت النبي صلى الله عليه وسلم فاسلمت، قال بكير: واخبرني ان ابا رافع كان قبطيا، قال ابو داود: هذا كان في ذلك الزمان فاما اليوم فلا يصلح. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ الأَشَجِّ، عَنْ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، أَنَّ أَبَا رَافِعٍ أَخْبَرَهُ، قَالَ: بَعَثَتْنِي قُرَيْشٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُلْقِيَ فِي قَلْبِي الْإِسْلَامُ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي وَاللَّهِ لَا أَرْجِعُ إِلَيْهِمْ أَبَدًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنِّي لَا أَخِيسُ بِالْعَهْدِ وَلَا أَحْبِسُ الْبُرُدَ، وَلَكِنْ ارْجِعْ فَإِنْ كَانَ فِي نَفْسِكَ الَّذِي فِي نَفْسِكَ الْآنَ فَارْجِعْ"، قَالَ: فَذَهَبْتُ ثُمَّ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْلَمْتُ، قَالَ بُكَيْرٌ: وَأَخْبَرَنِي أَنَّ أَبَا رَافِعٍ كَانَ قِبْطِيًّا، قَالَ أَبُو دَاوُد: هَذَا كَانَ فِي ذَلِكَ الزَّمَانِ فَأَمَّا الْيَوْمَ فَلَا يَصْلُحُ.
ابورافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قریش نے مجھے (صلح حدیبیہ میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا، جب میں نے آپ کو دیکھا تو میرے دل میں اسلام کی محبت پیدا ہو گئی، میں نے کہا: اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! میں ان کی طرف کبھی لوٹ کر نہیں جاؤں گا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نہ تو بدعہدی کرتا ہوں اور نہ ہی قاصدوں کو گرفتار کرتا ہوں، تم واپس جاؤ، اگر تمہارے دل میں وہی چیز رہی جو اب ہے تو آ جانا“، ابورافع کہتے ہیں: میں قریش کے پاس لوٹ آیا، پھر دوبارہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر مسلمان ہو گیا۔ بکیر کہتے ہیں: مجھے حسن بن علی نے خبر دی ہے کہ ابورافع قبطی غلام تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ اس زمانہ میں تھا اب یہ مناسب نہیں ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی اسلام لے آنے والے قاصد کو کفار کی طرف لوٹا دینا اسی مدت کے اندر اور خاص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تھا، اب ایسا کرنا اسلامی کاز کے لئے بہتر نہیں ہے۔
Narrated Abu Rafi: The Quraysh sent me to the Messenger of Allah ﷺ, and when I saw the Messenger of Allah ﷺ, Islam was cast into my heart, so I said: Messenger of Allah, I swear by Allah, I shall never return to them. The Messenger of Allah ﷺ replied: I do not break a covenant or imprison messengers, but return, and if you feel the same as you do just now, come back. So I went away, and then came to the Prophet ﷺ and accepted Islam. The narrator Bukair said: He informed me that Abu Rafi was a Copt. Abu Dawud said: This was valid in those days, but today it is not valid.
USC-MSA web (English) Reference: Book 14 , Number 2752