كِتَاب الْجَنَّةِ وَصِفَةِ نَعِيمِهَا وَأَهْلِهَا جنت اس کی نعمتیں اور اہل جنت 13. باب النَّارُ يَدْخُلُهَا الْجَبَّارُونَ وَالْجَنَّةُ يَدْخُلُهَا الضُّعَفَاءُ: باب: اس بات کے بیان میں کہ دوزخ میں ظالم و متکبر داخل ہوں گے اور جنت میں کمزور و مسکین داخل ہوں گے۔
سفیان نے ابو زناد سے، انھوں نے اعرج سے اور انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دوزخ اور جنت میں مباحثہ ہوا تو اس (دوزخ) نے کہا: میرے اندر جبار اور متکبر داخل ہوں گے۔اور اس (جنت) نے کہا: میرے اندر (اسباب دنیا ک اعتبار سے) ضعیف اور مسکین لوگ داخل ہوں گے۔اللہ عزوجل نے اس (دوزخ) سے کہا: تم میرا عذاب ہو، تمہارے ذریعے سے میں جنھیں چاہوں گا عذاب دوں گا۔یا شاید فرمایا: جنھیں چاہوں گا مبتلا کروں گا۔اور اس (جنت) سے کہا: تو میری رحمت ہے اور تمہارے ذریعے سے جس پرچاہوں گا رحم کروں گا اور تم دونوں کے لئے وہ مقدار ہوگی جو اس کو بھر دے گی۔"
ورقاء نے مجھے ابو زناد سے، انھوں نے اعرج سے، انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دوزخ اور جنت نے باہم (اپنی اپنی برتری کے) دلائل دیے دوزخ نے کہا: مجھے جبر وتکبر کرنے و الوں (کا ٹھکانہ ہونے) کی بناء پر ترجیح حاصل ہے۔جنت نے کہا: مجھے کیا ہواہے کہ میرے اندر کمزور، خاک نشین، اورعاجز ولاچار لوگ ہی داخل ہوں گے؟ اللہ عزوجل نے جنت سے فرمایا: تو میری رحمت ہے میں اپنے بندوں میں سے جن پر چاہوں گا تیسرے ذریعے سے رحمت کروں گا اور دوزخ سے کہا: تو میرا عذاب ہے میں اپنے بندوں میں سے جس کو چاہوں گاتمہارے ذریعے دے عذاب دوں گااور تم دونوں کے لئے اتنی (مخلوق) ہے جس سے تم بھر جاؤ۔رہی آگ تو وہ پوری طرح سے نہیں بھرے گی چنانچہ وہ (اللہ) اس کے اوپر اپناقدم رکھے گا تو وہ کہے گی!بس بس! اس وقت وہ بھر جائے گی اور باہم سمٹ جائے گی۔"
ایوب نے ابن سیرین سے اور انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا"جنت اور دوزخ نے (اپنی اپنی برتری کے) دلائل دیئے۔"پھر ابو زناد کی حدیث کے ہم معنی حدیث بیان کی۔
معمر نے ہمیں ہمام بن منبہ سے حدیث بیان کی، کہا: یہ احادیث ہیں جو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیں، انھوں نے بہت سی احادیث بیان کیں، ان میں سے (ایک) یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جنت اوردوزخ نے (اپنے اپنے بارے میں) ایک دوسرے کو دلائل دیئے۔دوزخ نے کہا: مجھے تکبر اور جبر کرنے والوں (کا ٹھکانہ ہونے) کی بناء پر ترجیح حاصل ہے۔جنت نے کہا: میرا کیا حال ہے کہ میرے اندر لوگوں میں سے کمزور خاک نشین اور سیدھے سادے لوگ داخل ہوں گے؟تو اللہ عزوجل نے جنت سے فرمایا: تو سراسر میری رحمت ہے، تیرے ذریعے سے میں اپنے بندوں میں سے جس کو چاہوں گا رحمت سے نوازوں گا اور دوزخ سے کہا: تو صرف اور صرف میرا عذاب ہے، تیرے ذریعے میں سے میں اپنے بندوں میں سے جس کو چاہوں گا عذاب میں ڈالوں گا اور تم دونوں میں سے ہر ایک کے لئے اتنے بندے ہیں جن سے وہ بھر جائے، جہاں تک آگ کا تعلق ہے تو وہ نہیں بھرے گی یہاں تک کہ اللہ تبارک وتعالیٰ۔اپنا قدم (اس پر) رکھ دے گا تو وہ کہے گی۔بس۔بس۔بس اس وقت وہ بھر جائے گی، اس کے بعض حصے بعض کے ساتھ سمٹ جائیں گے۔اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے کسی پر ظلم نہیں کرے گا اور جہاں تک جنت کا تعلق ہے تو اللہ (اس کے لیے) ایک مخلوق تیار کردے گا۔"
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جنت اور دوزخ نے ایک دوسرے کے سامنے دلائل دیے۔"پھرانہوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان: "تم دونوں کو بھرنا میری ذمہ داری ہے"تک بیان کیا اور اس کے بعدکے مزید الفاظ ذکر نہیں کیے۔
شیبان نے ہمیں قتادہ سے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی کہ اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛"دوزخ مسلسل یہی کہتی رہے گی: کیا اور زیادہ ہے؟یہاں تک کہ رب العزت تبارک وتعالیٰ اس میں اپنا قدم ٹکائے گا تو وہ کہے گی بس بس تیری عزت کی قسم! (میرامطالبہ ختم ہوگیا۔) اور اس کاایک حصہ دوسرے حصے سے سمٹ جائے گا۔"
ابان بن یزید عطار نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں قتادہ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شیبان کی حدیث کے ہم معنی روایت کی۔
عبدالوہاب بن عطا نے ہمیں اس (اللہ) عزوجل کے اس فرمان؛"جس دن ہم جہنم سے کہیں کے کیا تو بھر گئی اور وہ کہے گی: کیا اور زیادہ ہے؟"کے بارے میں حدیث بیان کی، انھوں نے ہمیں سعید سے خبر دی، انھوں نے قتادہ سے، انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے اور انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا"جہنم میں مسلسل (لوگوں کو) ڈالا جاتا رہے گا اور ہو کہتی رہے گی: کیا اور ہے؟یہاں تک کہ رب العزت اس میں اپنا پاؤں رکھ دے گا، تو اس کا بعض بعض کی طرف سمٹ جائے گا اور وہ کہے گی: تیری عزت اور تیرے کرم کی قسم! بس بس اور جنت میں مسلسل گنجائش رہے گی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایک خلقت پیدا کردے گا اور انھیں جنت کی بچی ہوئی جگہ میں بسا دے گا۔"
ثابت نے کہا: میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جنت میں سے جس حصے کے بارے میں اللہ تعالیٰ چاہے گا کہ باقی بچ جائے وہ باقی بچ جائے گا، پھر اللہ تعالیٰ اس کے لیے، جہاں سے چاہے گا، مخلوق پیدا کردے گا۔"
ابو بکر بن ابی شیبہ اور ابو کریب نے ہمیں حدیث بیان کی۔دونوں کے الفاظ ملتے جلتے ہیں۔دونوں نے کہا: ہمیں ابو معاویہ نے اعمش سے حدیث بیان کی۔انھوں نے ابوصالح سے اور انھوں نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قیامت کے دن موت کو اس طرح لایاجائے گا جیسے وہ سیاہ وسفید مینڈھا ہو۔ابو کریب نے مزید یہ کہا۔ چنانچہ اسے جنت اور جہنم کے درمیان میں کھڑا کردیا جائے گا۔باقی ماندہ حدیث (کے الفاظ) میں دونوں متفق ہیں۔تو (اعلان کرنے والا پکار کر) کہے گا: اے جنت والو! کیا اسے پہچانتے ہو؟تو وہ جھانکیں گے، دیکھیں گے اور کہیں گے: ہاں۔یہ موت ہے۔فرمایا: پھر کہا جائے گا: اے جہنم والو! کیا اسے پہچانتے ہو؟تو وہ جھانکیں گے، دیکھیں گے اور کہیں گے، ہاں، یہ موت ہے۔فرمایا: پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا اور اسے ذبح کردیا جائے گا۔فرمایا: پھر کہاجائے گا: اے جنت والو! (اب) دوام ہی دوام ہے موت نہیں ہےاور اے جہنم والو! (اب) دوام ہی دوام ہے، موت نہیں ہے۔"کہا: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ آیت) پڑھی: "ان کو حسرت کے دن سے ڈرائیے جب معاملہ نپٹا دیا جائے گا اور وہ سراسر غفلت میں ہیں اور وہ ایمان نہیں لاتے۔"اور آپ نے اپنے ہاتھ سے دنیا کی طرف اشارہ فرمایا۔
ہمیں جریر نے اعمش سے حدیث بیان کی، انھوں نے ابو صالح سے، اور انھوں نے ابو سعیدخدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب جنت والے جنت میں اور جہنم والے جہنم میں داخل کردیے جائیں گے۔تو کہا جائے گا اے اہل جنت!"اس کے بعد ابو معاویہ کی حدیث کے ہم معنی بیان کیا، مگر انھوں نے کہا: "یہی (اسی کے مطابق) ہے اس (اللہ) عزوجل کا فرمان۔"اورانھوں نے نہیں کہا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ آیت) پڑھی اور (اسی طرح) انھوں نے یہ بھی ذکر نہیں کیا کہ آپ کے اپنے ہاتھ سے د نیا کی طرف اشارہ فرمایا۔
نافع نے ہمیں حدیث بیان کی کہ حضرت عبداللہ (ابن عمر رضی اللہ عنہ) نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ اہل جنت کو جنت میں داخل کرے گا اور اہل جہنم کو جہنم میں داخل کرے گا۔پھر ان کےدرمیان ایک اعلان کرنے والا کھڑا ہوکر اعلان کرے گا: اے اہل جنت!اب موت نہیں ہے، اور اے اہل دوزخ!اب موت نہیں ہے ہر شخص جہاں ہے وہیں ہمیشہ رہنے والا ہے۔"
ابن وہب نے کہا: مجھے عمر بن محمد بن زید بن عبداللہ بن عمر بن خطاب نےحدیث بیان کی کہ انھیں ان کے والد نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ر وایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب جنت والے جنت میں اور جہنم والے جہنم میں چلے جائیں گے تو موت کو ذبح کیا جائے گا اور اس کو جنت اوردوزخ کے درمیان کھڑا کیاجائے گا پھر اسے ذبح کردیا جائے گا، پھر اعلان کرنے والا اعلان کرے گا: اے جنت والو! (اب) موت نہیں ہے (اور) اے جہنم والو! (اب) موت نہیں ہے۔اہل جنت کو اپنی خوشی پر مزید خوشی حاصل ہوجائے گی اور جہنم و الوں کو اپنے غم پر مزید غم لاحق ہوگا۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کافر کی داڑھ یا (فرمایا:) کافر کا کچلی دانت اُحد پہاڑ جتنا ہوجائے گا اور اس کی کھال کی موٹائی تین دن چلنے کی مسافت کے برابر ہوگی۔"
ابو کریب اور احمد بن عمر وکیعی نےہمیں حدیث بیان کی، دونوں نے کہا: ہمیں ابن فضیل نے اپنے والد سے، انھوں نے ابوحازم سے اور انھوں نےحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے اسے مرفوع بیان کرتے ہوئے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جہنم میں کافر کے دو کندھوں کے درمیان تیز رفتار سوار کی تین دن کی مسافت کےبرابر فاصلہ ہوگا۔" وکیعی نے"جہنم میں"کے الفاظ بیان نہیں کیے۔
معاذ عنبری نے کہا: ہمیں شعبہ نے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: مجھے معبد بن خالد نے حدیث بیان کی، انھوں نے حضرت حارثہ بن وہب رضی اللہ عنہ سے سنا کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا میں تمھیں اہل جنت کے بارے میں خبر نہ دوں؟انھوں (صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین) نے عرض کی: کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛"ہر کمزور جسے کمزور سمجھا جاتاہے۔ (مگر ایسا کہ) اگر (کسی معاملے میں) اللہ پر قسم کھا لے تو وہ اس کی قسم پوری کردے۔"پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا!"کیا میں تمھیں اہل جہنم کے بارے میں خبر نہ دوں؟"لوگوں نے کہا: کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " ہراجذ، مال اکھٹا کرنے والا اسے خرچ نہ کرنے والا اور تکبر اختیار کرنے والا۔"
محمد بن جعفر نے کہا: ہمیں شعبہ نے اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند حدیث بیان کی مگر اس میں کہا: "کیا میں تمہاری رہنمائی نہ کروں؟"
سفیان نے ہمیں معبد بن خالد سے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: میں نے حضرت حارثہ بن وہب خزاعی رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا میں تمھیں اہل جنت کی خبر نہ دوں؟ہر کمزور جسے کمزور اور لاچار سمجھا جاتا ہے۔ (لیکن ایساکہ) اگر اللہ پر (اعتماد کرتے ہوئے) قسم کھالے تو وہ اسے پوری کردے۔کیا میں تمھیں اہل جہنم کے بارے میں خبر نہ دوں؟ہر مال سمیٹنے والا اور اسے خرچ نہ کرنے والا، بد اصل، متکبر۔"
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛"بسا اوقات پراگندہ بالوں والا جسےدروازے پر سے لوٹا دیا جاتاہے۔ (ایسا ہوتا ہے) کہ اللہ پر (اعتماد کرتے ہوئے) قسم کھالے تو وہ (اللہ) اسے پوری کردیتا ہے۔"
ابو بکر بن ابی شیبہ اور ابو کریب نے ہمیں حدیث بیان کی، دونوں نے کہا: ہمیں ابن نمیر کےنے ہشام بن عروہ سے حدیث بیان کی، انھوں نے اپنے والد سے اورانھوں نے حضرت عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ سےروایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ ارشاد فرمایا تو (حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کا اور اس کی کونچیں کاٹنے والے شخص کا ذکر فرمایا، پھر آپ نے پڑھا: "جب اس (قبیلے) کابدبخت ترین شخص اٹھا" (آپ نے فرمایا: قبیلہ ثمود کا) سب سے طاقتور، شر پھیلانے والا، جس کو ا پنی قوم کا پورا تحفظ حاصل تھا، جس طرح ابوزمعہ (اسود بن مطلب) ہے، (کونچیں کاٹنے کے لئے) اٹھا۔"پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلے میں عورتوں کا بھی ذکر کیا، (صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کو) ان کے بارے میں وعظ ونصیحت فرمائی، پھر فرمایا؛" کیا وجہ ہے کہ تم میں سے کوئی اپنی بیوی کو (اس طرح) کوڑے سے مارتا ہے"ابو بکر کی روایت میں ہے: "جس طرح لونڈی کو مارتا ہے"اور ابو کریب کی روایت میں ہے؛"جس طرح غلام کو مارتا ہے۔پھر شاید دن کے آخر میں اسی کےساتھ ہم بستری کرے گا۔"پھران (صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین) کو گوز پر ہنسنے کے بارے میں نصیحت فرمائی: "تم میں سے کوئی کب تک اس کام پر ہنستا رہے گا جسے وہ خود کرتا ہے۔"
سہیل کے والد (ابوصالح) نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں نے عروہ بن لحی بن قمعہ بن خندف، ان بنو کعب والوں کے جذ اعلیٰ کو دیکھا، وہ جہنم میں اپنی انتڑیاں گھسیٹ رہا تھا۔
ابن شہاب نے کہا: میں نے سعید بن مسیب سےسنا، وہ کہتے ہیں: بحیرہ وہ جانور ہے جس کا دودھ جھوٹے خداؤں (بتوں) کے چڑھاوے کے لیے دوہنا بند کردیا جاتا ہے، اس لئے کوئی شخص ان کو نہیں دوہتا تھا، اورسائبہ وہ جانور ہے جسے جھوٹے خداؤں (کی سواری کے لئے) کھلا چھوڑ دیاجاتا ہے۔اس پر کوئی چیز تک نہیں لادی جاتی۔ اور ابن مسیب نے کہا: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں نے عمرو بن عامر خزاعی کو دیکھا، وہ جہنم میں اپنی انتڑیاں گھسیٹ رہا تھا، وہ پہلا شخص تھا جس نے سب سےپہلے (بتوں کے نام پر) کھلاچھوڑا جانے والا جانور چھوڑاتھا۔"
سہیل کے والد (ابو صالح) نے حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اہل جہنم کے دو قسمیں ایسی ہیں جن کو (دنیوی زندگی میں) میں نے (خود) نہیں دیکھا۔ایک گروہ وہ ہے جس کے پاس گایوں کی دموں کی طرح سے کوڑے ہوں گے جن سے وہ لوگوں کوماریں گے اور (دوسرے گروہ میں) وہ عورتیں ہیں جو لباس پہنے ہوئے (بھی) ننگی ہوں گی، دوسروں کو (گناہ پر) مائل کرنے والی، خود مائل ہونے والی ہوں گی ان کے سر (علاقہ) بخت کی اونٹنیوں کے ایک طرف جھکے ہوئے کوہانوں جیسے ہوں گے۔یہ عورتیں جنت میں داخل ہوں گی نہ اسکی خوشبو سونگھیں گی۔حالانکہ اس کی خوشبو اتنے اتنے (لمبے) فاصلے سےمحسوس ہوتی ہوگی۔"
زید بن حباب نے کہا: ہمیں افلح بن سعید نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کےآزاد کردہ غلام عبداللہ بن رافع نے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: میں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛"قریب ہے کہااگر تمھیں لمبی مدت مل گئی تو تم ایسے لوگوں کودیکھو گے جن کے ہاتھ میں گایوں کی دموں جیسے (کوڑے) ہوں گے، وہ اللہ کےغضب میں صبح گزاریں گے اور اللہ کی سخت ناراضگی میں شام بسر کریں گے۔"
ابو عامر عقدی نے کہا: ہمیں افلح بن سعید نے حدیث بیان کی، کہا: مجھے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام عبداللہ بن رافع نے حدیث بیان کی، کہا: میں نے حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "اگر تمھیں طویل مدت مل گئی تو قریب ہے کہ تم ایسے لوگوں کو دیکھو گے جن کی صبح اللہ کی سخت ناراضی میں اور جن کی شام اللہ کی لعنت کے سائے میں ہوگی۔ ان کے ہاتھوں میں گایوں کی دموں کی مانند (کوڑے) ہوں گے۔"
|