جماع أَبْوَابِ صَلَاةِ التَّطَوُّعِ بِاللَّيْلِ رات کی نفلی نماز (تہجّد) کے ابواب کا مجموعہ 711. (478) بَابُ ذِكْرِ خَبَرٍ نَسَخَ فَرْضَ قِيَامِ اللَّيْلِ بَعْدَمَا كَانَ فَرْضًا وَاجِبًا قیام اللیل (نماز تہجّد) کے فرض و واجب ہونے کے بعد اس کی فرضیت کے منسوخ ہونے کے بارے میں مروی حدیث کا بیان
سیدنا سعد بن ہشام بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت حکیم بن افلح کے پاس آیا، پھر ہم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں گئے، ہم نے اجازت طلب کی تو ہمیں حاضری کی اجازت مل گئی۔ ہم نے عرض کی اے اُم المؤمنین، مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ کے بارے میں بتائیں۔ تو اُنہوں نے فرمایا، کیا آپ قرآن مجید کی تلاوت نہیں کرتے۔ ان کی مراد اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان تھا: «وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ» [ سورہ القلم: 4 ] ”یقیناًً ً آپ خلق عظیم پر (کاربند) ہیں۔ تو اُنہوں نے کہا، کیوں نہیں، (میں یہ فرمان تلاوت کرتا ہوں) اُم المؤمنین نے فرمایا، بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق قرآن ہی تھا۔ پھر میں نے عرض کی کہ اے اُم المؤمنین، مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام (رات کی نماز) کے متعلق خبر دیں۔ اُنہوں نے فرمایا تو کیا تم سورہ المزمل کی تلاوت نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں، میں نے عرض کی کہ جی کرتا ہوں پس اُنہوں نے فرمایا، بیشک اللہ تعالیٰ نے اس سورت کی ابتدا میں رات کا قیام فرض کیا تھا۔ تو اللہ کے نبی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام نے ایک سال تک رات کا قیام کیا حتیٰ کہ ان کے قدم سوجھ گئے۔ اور اللہ تعالیٰ نے اس سورت کے آخری حصّہ کو آسمان میں بارہ مہنیے روکے رکھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس سورت کے آخر میں تخفیف نازل فرمائی۔ لہٰذا رات کا قیام فرض ہونے کے بعد نفل ہوگیا۔ پھر اُنہوں نے بقیہ حدیث بیان کی۔ حدیث کے آخر میں یہ الفاظ ہیں۔ تو میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا اور اُنہیں اُم المؤمنین کی گفتگو سنائی۔ تو انہوں نے فرمایا کہ (اماں جی نے) سچ فرمایا ہے۔
تخریج الحدیث: تقدم۔۔۔
|