جُمَّاعُ أَبْوَابِ ذِكْرِ الْوِتْرِ وَمَا فِيهِ مِنَ السُّنَنِ نمازِوتر اور اس میں سنّتوں کے ابواب کا مجموعہ 691. (458) بَابُ ذِكْرِ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا أَوْتَرَ هَذِهِ اللَّيْلَةَ الَّتِي بَاتَ ابْنُ عَبَّاسٍ فِيهَا عِنْدَهُ بَعْدَ طُلُوعِ الْفَجْرِ الَّذِي يَكُونُ بَعْدَ طُلُوعِهِ لَيْلٌ لَا نَهَارٌ، اس بات کی دلیل کا بیان کہ جو رات سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر گزاری تھی، اُس رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی فجر کے طلوع کے بعد وتر ادا کیے تھے، اس فجر کے بعد رات ہوتی ہے، دن نہیں
تخریج الحدیث:
سیدنا ابن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں اپنی خالہ (سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا) کے ہاں گیا۔ پھر حدیث کا کچھ حصّہ بیان کیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کی طرف تشریف لے گئے اور اس میں نماز پڑھنا شروع کر دی۔ میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں جانب کھڑا ہوگیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دیر ٹھہرے رہے پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یقین ہوگیا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھنا چاہتا ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے میری پیشانی سے پکڑ کر کھینچا حتیٰ کہ مجھے اپنی دائیں طرف کھڑا کرلیا۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رات کی نماز دو دو رکعت کر کے ادا کی، پھر جب پہلی فجر طلوع ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر نو رکعات پڑھیں، ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرتے اور ایک رکعت وتر پڑھا۔ اور یہ نویں رکعت تھی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رُک گئے حتیٰ کہ فجر خوب روشن ہوگئی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور فجر کی دو سنّتیں ادا کیں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علیہ وسلم اپنے پہلو کے بل سوگئے، پھر سیدنا بلال رضی اللہ عنہ آئے۔ آگے مکمّل حدیث بیان کی۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کے الفاظ کتاب الکبیر میں بیان کیے ہیں۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ سیدنا بن جبیر کی اس روایت میں اس بات کی دلیل ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی فجر کے طلوع ہونے کے بعد اور دوسری فجر کے طلوع سے پہلے وتر ادا کیے ہیں۔ اس طرح فجر کی دو اقسام ہیں۔ پہلی فجر رات کے وقت طلوع ہوتی ہے (ابھی رات کا کچھ حصّہ باقی ہوتا ہے) اور دوسری فجر وہ ہے جس کے طلوع ہونے کے بعد دن طلوع ہو جاتا ہے وہ مسئلہ جو میں نے اپنے اصحاب پر اعتراض کرنے والے بعض علماء کے رد میں املاء کرایا تھا کہ ایک رکعت وتر پڑھنا جائز نہیں ہے میں نے اس مسئلہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی تین رکعات وتر کے متعلق روایات اور ان کی علتوں کو اس جگہ املاء کرا دیا تھا - امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ قنوت وتر کے بارے میں مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت کوئی حدیث یاد نہیں ہے۔ میں نے اس مسئلہ میں سیدنا ابی بن کعب رضی اﷲ عنہ کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی وتروں میں قنوت کے متعلق روایت کی علت اور اس کی اسا نید بیان کر دی ہیں۔ اور میں نے اسی جگہ بیان کر دیا ہے کہ سیدنا ابی رضی اللہ عنہ کی حدیث میں قنوت کا ذکر صحیح نہیں ہے۔ اس لئے کہ تین رکعات وتر کے متعلق ابی رضی اللہ عنہ کی حدیث بھی ثابت نہیں ہے۔ جبکہ برید بن ابی مریم کی روایت ابی حواراء کے واسطے سے سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں وتروں میں پڑھنے کے لئے دعا سکھائی تھی۔
تخریج الحدیث: اسناده ضعيف
سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے چند دعایئہ کلمات سیکھے ہیں جنہیں میں قنوت (وتر) میں پڑھتا ہوں۔ (امام صاحب ایک اور سند سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں) سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے چند دعائیہ کلمات سکھائے جنہیں میں قنوت وتر میں پڑھتا ہوں۔ (وہ کلمات یہ ہیں) «الّٰھُمَّ اهْدِنِي فِي مَنْ هَدَيْتَ، وَعَافِنِي فِي مَنْ عَافَيْتَ، وَتَوَلَّنِي فِي مَنْ تَوَلَّيْتَ، وَبَارِكْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ، وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ، فَاِنَّكَ تَقْضِي وَلَا يُقْضَى عَلَيْكَ، وَإِنَّهُ لَا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ، تَبَارَكْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ» ”اے اللہ، مجھے ان لوگوں میں ہدایت نصیب فرما جنہیں تُو نے ہدایت نصیب فرمائی ہے۔ اور مجھے ان لوگوں میں عافیت و سلامتی عنایت فرما جن کو تُو نے عافیت و سلامتی عنایت فرمائی ہے۔ اور مجھے ان لوگوں میں دوست بنالے جنہیں تُو نے اپنا دوست بنایا ہے۔ اور مجھے خیروبرکت عطا فرما اس میں جو تُو نے مجھے عطا کیا ہے، اور مجھے اس فیصلے کے شر سے بچالے جو تُو نے کیا ہے بلاشبہ تُو ہی فیصلہ کرتا ہے اور تیرے خلاف فیصلہ نہیں کیا جاتا - اور بیشک جسے تُو دوست بنا لے وہ ذلیل نہیں ہو سکتا۔ اے ہمارے رب، تُو بہت بابرکت اور بلند و بالا ذات ہے۔“ یہ وکیع کی روایت ہے۔ مگر یوسف نے بغیر واؤ کے «إِنَّهُ لَا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ» روایت کیا ہے اور ابن رافع فاء نے بغیر واؤ کے یہ جملہ «إِنَّكَ تَقْضِي وَلَا يُقْضَى عَلَيْكَ» اور واؤ کے بغیر یہ جملہ «إِنَّهُ لَا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ» روایت کیا ہے۔ اسی حدیث کو امام شعبہ نے برید بن ابی مریم سے دعا کے قصّے میں روایت کیا ہے مگر قنوت اور وتر کا تذکرہ نہیں کیا۔
تخریج الحدیث: اسناده صحيح
امام شعبہ برید بن ابی مریم سے اور وہ ابوحوارء سے روایت کر تے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کون سی دعا یاد کی ہے؟ تو اُنہوں نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں یہ دعا سکھایا کر تے تھے: «الّٰھُمَّ اهْدِنِي فِي مَنْ هَدَيْتَ» دعا کے بارے میں وکیع کی حدیث کی طرح بیان کیا، اور قنوت اور وتر کے بارے میں تذکرہ نہیں کیا (یعنی یہ نہیں کہا کہ یہ دعا ہم قنوت وتر میں پڑھتے تھے) اور امام شعبہ، یونس بن ابی اسحاق جیسے بیشمار راویوں سے حفظ میں پختہ اور مضبوط ہیں - جبکہ ابواسحاق کے بارے میں یہ بھی معلوم نہیں کہ اس نے یہ روایت برید سے سنی ہے یا اس سے تدلیس کی ہے - البتہ یہ ممکن ہے کہ جس طرح ہمارے بعض علماء کرام کا دعویٰ ہے کہ ہر وہ روایت جو یونس اپنے والدگرامی ابواسحاق کے مشائخ سے بیان کرتا ہے وہ روایت یونس نے اپنے والد ابو اسحاق کے ساتھ اس کے مشائخ سے سنی ہے اور اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ روایت ثابت ہو جائے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قنوت وتر کا حُکم دیا ہے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتروں میں دعائے قنوت پڑھی ہے تو میرے نزدیک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کی مخالفت کرنا جائز نہیں ہے۔ لیکن اس حدیث کے ثابت ہونے کا مجھے علم نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: اسناده صحيح
امام زہری نے حضرت سعید بن مسیب اور ابوسلمہ بن عبدالرحمان کے واسطے سے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی قوم کے حق میں دعا یا کسی قوم کے خلاف بد دعا کرنے کے علاوہ قنوت نہیں کیا کرتے تھے۔ چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی قوم کے حق میں دعا کرنا چاہتے یا کسی قوم کے خلاف بد دعا کرنا چاہتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر کی دوسری رکعت (کے رکوع) سے سر اٹھانے کے بعد قنوت کرتے۔ اہل کوفہ کے بزرگ علاء بن صالح نے زبید کے واسطے سے عبدالرحمان بن لیلیٰ کی سند سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے متعلق روایت بیان کی ہے۔ جناب زبید کہتے ہیں کہ انہوں نے عبدالرحمان بن ابی لیلیٰ سے قنوت وتر کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ہمیں سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ یہ جاری اور ثابت سنّت ہے۔ یہ بزرگ علاء بن صالح کو اس لفظ ”فی الوتر“ (وتروں میں قنوت) میں وہم ہوا ہے۔ بیشک یہ لفظ ”فی الفجر“ (نماز فجر میں قنوت) ہے۔ ”فی الوتر“ (وتروں میں قنوت) نہیں ہے۔ شاید کہ ان کی کتاب سے فاء اور جیم کے درمیان حرف کچھ مٹ گیا ہو۔ اور فاء واؤ بن گئی ہو۔ اور جیم چھوٹی سی لکھی تھی تو وہ تا کے مشابہ ہوگئی، (اور لفظ فجر سے وتر بن گیا) اور یہ بھی ممکن کے کہ اُنہوں نے اپنے شہر والوں کو وتروں میں قنوت کرتے دیکھا ہو اور اُن کے علماء نماز فجر میں قنوت نہیں کرتے تھے تو انہیں یہ وہم ہو گیا ہو کہ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی روایت قنوت وتر کے بارے میں ہے۔ (حالانکہ وہ قنوت فجر کے بارے میں ہے) امام سفیان ثوری رحمه الله نے زبید الیمامی سے روایت کی کہ وہ کہتے ہیں کہ میں نے عبدالرحمان بن ابی لیلیٰ سے نماز فجر میں قنوت کے بارے میں پوچھا تو اُنہوں نے فرمایا کہ یہ جاری اور ثابت سنّت ہے۔ لہٰذا امام سفیان ثوری رحمه الله جو علاء بن صالح جیسے دو سو راویوں سے بڑھ کر حفظ و اتقان والے ہیں۔ اُنہوں نے یہ خبر دی ہے کہ زبید نے عبدالرحمان بن ابی لیلیٰ سے نماز فجر میں قنوت کے بارے میں سوال کیا تھا، وتروں میں قنوت کے بارے میں نہیں کیا تھا۔ تو اُنہوں نے زبید کو بتایا کہ (نماز فجر میں قنوت) جاری اور ثابت سنّت ہے۔ اور اُنہوں نے اپنی روایت میں سیدنا براء رضی اللہ عنہ کا تذکرہ بھی نہیں کیا۔ امام سفیان ثوری اور امام شعبہ رحمه الله نے، جو اپنے وقت کے حدیث کے دو امام ہیں، اُنہوں نے عمرو بن مرہ کے واسطے سے عبد الرحمان بن ابی لیلیٰ سے اور وہ سیدنا براء رضی ﷲ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر میں قنوت کیا ہے۔
تخریج الحدیث:
سیدنا براء رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر میں قنوت کیا۔
تخریج الحدیث:
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز مغرب اور نماز صبح میں قنوت کرتے تھے۔ امام شعبہ، عمرو بن مرہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں، میں نے ابن لیلیٰ کو سیدنا برا بن عازب رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہوئے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صبح اور مغرب میں دعائے قنوت کرتے تھے - لہٰذا سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی بنی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی روایت کے یہ الفاظ صحیح ہیں - علاء بن صالح کی روایت کے الفاظ درست نہیں ہیں اور قنوت وتر کے متعلق اعلیٰ ترین روایت جو محفوظ و ثابت ہے وہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور میں سیدنا ابی کعب رضی اللہ عنہ سے موقوف بیان کی گئی ہے کہ وہ (صحابہ کرام) نصف رمضان المبارک کے بعد قنوت وتر کیا کر تے تھے۔
تخریج الحدیث: صحيح مسلم
سیدنا عروہ بن زبیر بیان کر تے ہیں کہ سیدنا عمر بن خطاب کے دور خلافت میں عبدالرحمان بن قاری، عبد اللہ بن ارقم کے ساتھ بیت المال کے گورنر تھے۔ (وہ بیان کر تے ہیں کہ) سیدنا عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ رمضان المبارک کی ایک رات گھر سے باہر تشریف لائے تو عبدالرحمان بن عبدالقاری بھی اُن کے ساتھ چل دیے۔ اُنہوں نے مسجد کا ایک چکّر لگایا جبکہ اہل مسجد مختلف گروہوں کی شکل میں نماز پڑھ رہے تھے، کوئی شخص اکیلا ہی نماز پڑھ رہا تھا، اور کسی شخص کے ساتھ کچھ لوگ مل کر نماز ادا کر رہے تھے، چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم، بیشک میرا خیال ہے کہ اگر ہم ان سب کہ ایک ہی قاری کے ساتھ جمع کریں تو یہ بہت اچھا ہو گا، پھر سیدنا عمر رضی ﷲ عنہ نے اس بات کا پختہ ارادہ فرمایا۔ اور سیدنا ابی بن کعب رضی ﷲ عنہ کو حُکم دیا کہ وہ انہیں رمضان المبارک میں نفل نماز پڑھایا کریں۔ پھر ایک روز سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ ان کے پاس تشریف لائے جب کہ وہ اپنے قاری کے ساتھ (نفل) نماز پڑھ رہے تھے، تو سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ نیا کام کتنا اچھا ہے۔ رات کے جس حصّے سے تم سوجاؤ گے وہ اس حصّے سے افصل ہے جس میں تم نماز پڑھ رہے ہو۔ آپ کی مراد رات کا آخری حصّہ تھا۔ تو لوگ ابتدائی رات میں قیام کرتے تھے، اور نصف رمضان المبارک کے بعد کفار پر (ان الفاظ میں) لعنت بھیجتے تھے۔ (دعائے قنوت پڑھتے تھے) «اللّٰهُمَّ قَاتِلِ الْكَفَرَةَ الَّذِينَ يَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِكَ وَيُكَذِّبُونَ رُسُلَكَ، وَلَا يُؤْمِنُونَ بِوَعْدِكَ، وَخَالِفْ بَيْنَ كَلِمَتِهِمْ، وَأَلْقِ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ، وَأَلْقِ عَلَيْهِمْ رِجْزَكَ وَعَذَابَكَ، إِلٰهَ الْحَقِّ» ”اے اللہ، ان کافروں کو تباہ و برباد کر دے، جو تیرے راستے سے روکتے ہیں، اور تیرے رسولوں کو جھٹلاتے ہیں، اور تیرے وعدے پر ایمان نہیں لاتے، اور ان کے اتحاد کو پارہ پارہ کر دے، ان کے دلوں میں رعب ڈال دے، اے معبود برحق، ان پر اپنا عذاب مسلط کر دے۔“ پھر (قاری اور امام) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتا اور مسلمانوں کے لئے حسب استطاعت خیر و بھلائی کی دعائیں مانگتا پھر مومنوں کے لئے بخشش کی دعائیں کرتا۔ راوی کا بیان ہے کہ امام جب کفار پر لعنت بھیجنے سے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے اور مومن مردوں اور عورتوں کے لئے بخشش کی دعا کرنے سے فارغ ہوتا تو یہ دعا بھی مانگتا «اللّٰهُمَّ إِيَّاكَ نَعْبُدُ، وَلَكَ نُصَلِّي وَنَسْجُدُ وَإِلَيْكَ نَسْعٰى وَنَحْفِدُ، وَنَرْجُو رَحْمَتَكَ رَبَّنَا، وَنَخَافُ عَذَابَكَ الْجِدّ، إِنَّ عَذَابَكَ لِمَنْ عَادَيْتَ مُلْحِقٌ» ”اے اللہ، ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں، ہم تیرے لئے ہی نماز پڑھتے اور سجدے کر تے ہیں اور تیری طرف ہی جستجو اور جدو جہد کرتے ہیں۔ اے ہمارے رب ہم تیری رحمت کی اُمید کر تے ہیں اور تیرے سخت عذاب سے ڈرتے ہیں بیشک تیرا عذاب تیرے دشمنوں پر مسلط ہو کر رہے گا۔“، پھر امام ”اللهُ أَكْبَرُ“ کہہ کر سجدے کے لیے جُھک جاتا۔
تخریج الحدیث:
|