جُمَّاعُ أَبْوَابِ ذِكْرِ الْوِتْرِ وَمَا فِيهِ مِنَ السُّنَنِ نمازِوتر اور اس میں سنّتوں کے ابواب کا مجموعہ 690. (457) بَابُ ذِكْرِ خَبَرٍ رُوِيَ فِي وِتْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ الْفَجْرِ مُجْمَلٍ غَيْرِ مُفَسَّرٍ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فجر کے بعد وتر پڑھنے کے متعلق مروی مجمل غیر مفسر روایت کا بیان
تخریج الحدیث:
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے چند اونٹ دینے کا وعدہ فرمایا تھا تو اُنہوں نے مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عشاء کے بعد بھیجا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف فرما تھے۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے۔ تو میں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تکیے کو تکیہ بنا لیا (اور لیٹ گیا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیرسوئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُٹھ گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا تو مکمّل وضو کیا اور پانی کم بہایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز شروع کر دی، چنانچہ میں بھی اُٹھ گیا اور وضو کیا پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ مبارک سے (مجھے) پیچھے کیا اور میرے کان سے پکڑ کر اپنی دائیں جانب کھڑا کرلیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرنا شروع کر دیا اور سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا حائضہ تھیں، تو اُنہوں نے اٹھ کر وضو کیا، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھ کر ﷲ تعالیٰ کا ذکر کرنے لگیں۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ” تمہیں تمہارے شیطان نے اٹھا دیا ہے؟“ اُنہوں نے عرض کہ اے اللہ کے رسول، میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان کیا میرا شیطان بھی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس نے مجھے حق دے کر بھیجا ہے۔ ہاں میرا بھی شیطان ہے، مگر اللہ تعالیٰ نے اس کے مقابلے میں میری مدد فرمائی ہے تو میں اس کے شر سے محفوظ ہوں۔“ پھر جب فجر طلوع ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُٹھ کر ایک رکعت وتر ادا کیا - پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی دو رکعتیں ادا کیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دائیں پہلو پر لیٹ گئے حتیٰ کہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز فجر کی اطلاع کی (تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُٹھ گئے)۔
تخریج الحدیث: اسناده ضعيف
|