جُمَّاعُ أَبْوَابِ ذِكْرِ الْوِتْرِ وَمَا فِيهِ مِنَ السُّنَنِ نمازِوتر اور اس میں سنّتوں کے ابواب کا مجموعہ 676. (443) بَابُ ذِكْرِ الْأَخْبَارِ الْمَنْصُوصَةِ وَالدَّالَّةِ عَلَى أَنَّ الْوِتْرَ لَيْسَ بِفَرْضٍ ان احادیث کا بیان جو اس بات کی صریح نص و دلیل ہیں کہ نمازِ وتر فرض نہیں ہے
تخریج الحدیث:
امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں کتاب کے شروع میں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک اعرابی کا اسلام کے متعلق سوال اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسے جواب، سیدنا طلحہ بن عبیداللہ کی روایت املا کراچکا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض ہیں۔ اُس نے دریا فت کیا کہ ان کے علاوہ بھی مجھ پر کوئی نماز فرض ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، مگر یہ کہ تم نفل نماز پڑھو“۔ تو نبی مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بتا دیا کہ پانچ نمازوں سے جو زائد ہوگی وہ نفل ہوگی۔
تخریج الحدیث: تقدم۔۔۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ”بیشک وتر واجب نہیں ہے۔ اور نہ تمہاری فرض نمازوں کی طرح ہے۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر ادا کیا ہے۔ پھر فرمایا کہ اے اہل قرآن، وتر ادا کیا کرو، پس بیشک ﷲ تعالیٰ وتر ہے اور وتر (عدد) کو پسند کرتا ہے۔ جناب عبداﷲ بن سعید الاشج نے یہ الفاظ بیان نہیں کیے کہ اے اہل قرآن، وتر ادا کیا کرو۔ جناب سعید بن عبدالرحمان نے سفیان کے واسطے سے ابواسحاق سے سند و متن کے لحاظ سے الدورقی کی حدیث کی طرح روایت بیان کی ہے۔
تخریج الحدیث:
جناب عبدالرحمان بن ابی عمرہ البخاری سے روایت ہے کہ اُنہوں نے سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے وتر کے متعلق پوچھا تو اُنہوں نے فرمایا، بہت عمدہ اور اچھا کام ہے - نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد مسلمانوں نے اس پر عمل کیا ہے، اور یہ واجب نہیں ہے۔ امام ابوبکر رحمه الله کہتے ہیں کہ میں نے کتاب الکبیر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ فرامین بیان کیے ہیں جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمّت پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ تو ان روایات نے اس بات پر دلالت کی ہے کہ بندوں پر وتر کو واجب قرار دینے والا شخص، ان پر دن اور رات میں چھ نمازیں واجب قرار دیتا ہے - اور یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کے خلاف ہے - مسلمانوں کے عالم اور جاہل جو سمجھتے ہیں، اس کے بھی خلاف ہے۔ پردہ نشین خواتین نے پردہ میں جو سمجھا، بچوں نے مکتب و مدرسہ میں جو سمجھا اور جو غلاموں اور لونڈیوں نے سمجھا اس کے خلاف ہے - کیونکہ یہ تمام لوگ جانتے ہیں کہ فرض نمازیں پانچ ہیں، چھ نہیں۔
تخریج الحدیث: اسناده حسن
جناب عبدالوارث بن سعید بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام ابوحنیفہ سے پوچھا یا امام ابوحنیفہ سے وتر کے بارے میں پوچھا گیا، تو اُنہوں نے فرمایا کہ وتر فرض ہے۔ تو میں نے کہا یا اُن سے کہا گیا، فرض نمازوں کی تعداد کتنی ہے؟ جواب دیا کہ پانچ نمازیں ہیں۔ تو اُن سے کہا گیا تو آپ وتر کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ فرض ہے - تو میں نے کہا یا اُن سے کہا گیا کہ آپ کو حساب کرنا نہیں آتا۔
تخریج الحدیث:
|