صحيح ابن خزيمه کل احادیث 3080 :حدیث نمبر
صحيح ابن خزيمه
جُمَّاعُ أَبْوَابِ ذِكْرِ الْوِتْرِ وَمَا فِيهِ مِنَ السُّنَنِ
نمازِوتر اور اس میں سنّتوں کے ابواب کا مجموعہ
676. (443) بَابُ ذِكْرِ الْأَخْبَارِ الْمَنْصُوصَةِ وَالدَّالَّةِ عَلَى أَنَّ الْوِتْرَ لَيْسَ بِفَرْضٍ
ان احادیث کا بیان جو اس بات کی صریح نص و دلیل ہیں کہ نمازِ وتر فرض نہیں ہے
حدیث نمبر: Q1066
Save to word اعراب
لا على ما زعم من لم يفهم العدد، ولا فرق بين الفرض وبين الفضيلة، فزعم ان الوتر فريضة، فلما سئل عن عدد الفرض من الصلاة زعم ان الفرض من الصلاة خمس، فقيل له: والوتر، فقال: فريضة، فقال السائل: انت لا تحسن العددلَا عَلَى مَا زَعَمَ مَنْ لَمْ يَفْهَمِ الْعَدَدَ، وَلَا فَرَّقَ بَيْنَ الْفَرْضِ وَبَيْنَ الْفَضِيلَةِ، فَزَعَمَ أَنَّ الْوِتْرَ فَرِيضَةٌ، فَلَمَّا سُئِلَ عَنْ عَدَدِ الْفَرْضِ مِنَ الصَّلَاةِ زَعَمَ أَنَّ الْفَرْضَ مِنَ الصَّلَاةِ خَمْسٌ، فَقِيلَ لَهُ: وَالْوِتْرُ، فَقَالَ: فَرِيضَةٌ، فَقَالَ السَّائِلُ: أَنْتَ لَا تُحْسِنُ الْعَدَدَ

تخریج الحدیث:
حدیث نمبر: 1066
Save to word اعراب
امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں کتاب کے شروع میں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک اعرابی کا اسلام کے متعلق سوال اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسے جواب، سیدنا طلحہ بن عبیداللہ کی روایت املا کراچکا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض ہیں۔ اُس نے دریا فت کیا کہ ان کے علاوہ بھی مجھ پر کوئی نماز فرض ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، مگر یہ کہ تم نفل نماز پڑھو۔ تو نبی مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بتا دیا کہ پانچ نمازوں سے جو زائد ہوگی وہ نفل ہوگی۔

تخریج الحدیث: تقدم۔۔۔
حدیث نمبر: 1067
Save to word اعراب
نا يعقوب بن إبراهيم الدورقي ، وعبد الله بن سعيد الاشج ، ومحمد بن هشام ، قالوا: حدثنا ابو بكر بن عياش ، نا ابو إسحاق ، عن عاصم بن ضمرة ، قال: قال علي : إن الوتر ليس بحتم، ولا كصلاتكم المكتوبة، ولكن رسول الله صلى الله عليه وسلم اوتر، ثم قال:" يا اهل القرآن اوتروا ؛ فإن الله وتر يحب الوتر" . غير ان الاشج لم يذكر: يا اهل القرآن اوتروا. وقال محمد بن هشام، عن ابي إسحاق، وحدثنا سعيد بن عبد الرحمن المخزومي ، نا سفيان ، عن ابي إسحاق نحو حديث الدورقي في إسناده، ومتنهنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ الأَشَجُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ هِشَامٍ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، نَا أَبُو إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ ، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ : إِنَّ الْوِتْرَ لَيْسَ بِحَتْمٍ، وَلا كَصَلاتِكُمُ الْمَكْتُوبَةِ، وَلَكِنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْتَرَ، ثُمَّ قَالَ:" يَا أَهْلَ الْقُرْآنِ أَوْتِرُوا ؛ فَإِنَّ اللَّهَ وِتْرٌ يُحِبُّ الْوِتْرَ" . غَيْرُ أَنَّ الأَشَجَّ لَمْ يَذْكُرْ: يَا أَهْلَ الْقُرْآنِ أَوْتِرُوا. وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ هِشَامٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، وَحَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ ، نَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ نَحْوَ حَدِيثِ الدَّوْرَقِيِّ فِي إِسْنَادِهِ، وَمَتْنِهِ
سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ بیشک وتر واجب نہیں ہے۔ اور نہ تمہاری فرض نمازوں کی طرح ہے۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر ادا کیا ہے۔ پھر فرمایا کہ اے اہل قرآن، وتر ادا کیا کرو، پس بیشک ﷲ تعالیٰ وتر ہے اور وتر (عدد) کو پسند کرتا ہے۔ جناب عبداﷲ بن سعید الاشج نے یہ الفاظ بیان نہیں کیے کہ اے اہل قرآن، وتر ادا کیا کرو۔ جناب سعید بن عبدالرحمان نے سفیان کے واسطے سے ابواسحاق سے سند و متن کے لحاظ سے الدورقی کی حدیث کی طرح روایت بیان کی ہے۔

تخریج الحدیث:
حدیث نمبر: 1068
Save to word اعراب
حدثنا بندار ، نا عبد الله بن حمران ، نا عبد الحميد بن جعفر بن عبد الله ، حدثني جعفر بن عبد الله ، عن عبد الرحمن بن ابي عمرة النجاري ، انه سال عبادة بن الصامت عن الوتر، قال:" امر حسن جميل عمل به النبي صلى الله عليه وسلم والمسلمون من بعده، وليس بواجب" . قال ابو بكر: قد خرجت في كتاب الكبير اخبار النبي صلى الله عليه وسلم في إعلامه ان الله فرض عليه وعلى امته خمس صلوات في اليوم والليلة، فدلت تلك الاخبار على ان الموجب للوتر فرضا على العباد موجب عليهم ست صلوات في اليوم والليلة، وهذه المقالة خلاف اخبار النبي صلى الله عليه وسلم، وخلاف ما يفهمه المسلمون، عالمهم وجاهلهم وخلاف ما تفهمه النساء في الخدور والصبيان في الكتاتيب، والعبيد والإماء، إذ جميعهم يعلمون ان الفرض من الصلاة خمس لا ستحَدَّثَنَا بُنْدَارٌ ، نَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حُمْرَانَ ، نَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنِي جَعْفَرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَمْرَةَ النَّجَّارِيِّ ، أَنَّهُ سَأَلَ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ عَنِ الْوِتْرِ، قَالَ:" أَمْرٌ حَسَنٌ جَمِيلٌ عَمِلَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُسْلِمُونَ مِنْ بَعْدِهِ، وَلَيْسَ بِوَاجِبٍ" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَدْ خَرَّجْتُ فِي كِتَابِ الْكَبِيرُ أَخْبَارَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي إِعْلامِهِ أَنَّ اللَّهَ فَرَضَ عَلَيْهِ وَعَلَى أُمَّتِهِ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ، فَدَلَّتْ تِلْكَ الأَخْبَارُ عَلَى أَنَّ الْمُوجِبَ لِلْوِتْرِ فَرْضًا عَلَى الْعِبَادِ مُوجِبٌ عَلَيْهِمْ سِتَّ صَلَوَاتٍ فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ، وَهَذِهِ الْمَقَالَةُ خِلافُ أَخْبَارِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَخِلافُ مَا يَفْهَمُهُ الْمُسْلِمُونَ، عَالِمُهُمْ وَجَاهِلُهُمْ وَخِلافُ مَا تَفْهَمُهُ النِّسَاءُ فِي الْخُدُورِ وَالصِّبْيَانُ فِي الْكَتَاتِيبِ، وَالْعَبِيدُ وَالإِمَاءُ، إِذْ جَمِيعُهُمْ يَعْلَمُونَ أَنَّ الْفَرْضَ مِنَ الصَّلاةِ خَمْسٌ لا سِتٌّ
جناب عبدالرحمان بن ابی عمرہ البخاری سے روایت ہے کہ اُنہوں نے سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے وتر کے متعلق پوچھا تو اُنہوں نے فرمایا، بہت عمدہ اور اچھا کام ہے - نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد مسلمانوں نے اس پر عمل کیا ہے، اور یہ واجب نہیں ہے۔ امام ابوبکر رحمه الله کہتے ہیں کہ میں نے کتاب الکبیر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ فرامین بیان کیے ہیں جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمّت پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ تو ان روایات نے اس بات پر دلالت کی ہے کہ بندوں پر وتر کو واجب قرار دینے والا شخص، ان پر دن اور رات میں چھ نمازیں واجب قرار دیتا ہے - اور یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کے خلاف ہے - مسلمانوں کے عالم اور جاہل جو سمجھتے ہیں، اس کے بھی خلاف ہے۔ پردہ نشین خواتین نے پردہ میں جو سمجھا، بچوں نے مکتب و مدرسہ میں جو سمجھا اور جو غلاموں اور لونڈیوں نے سمجھا اس کے خلاف ہے - کیونکہ یہ تمام لوگ جانتے ہیں کہ فرض نمازیں پانچ ہیں، چھ نہیں۔

تخریج الحدیث: اسناده حسن
حدیث نمبر: 1069
Save to word اعراب
ثنا ايوب بن إسحاق، نا ابو معمر، عن عبد الوارث بن سعيد، قال: سالت ابا حنيفة، او سئل ابو حنيفة، عن الوتر، فقال:" فريضة، فقلت: او فقيل له: فكم الفرض؟ قال: خمس صلوات، فقيل له: فما تقول في الوتر؟ قال: فريضة، فقلت او فقيل له: انت لا تحسن الحساب" ثنا أَيُّوبُ بْنُ إِسْحَاقَ، نَا أَبُو مَعْمَرٍ، عَنْ عَبْدِ الْوَارِثِ بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا حَنِيفَةَ، أَوْ سُئِلَ أَبُو حَنِيفَةَ، عَنِ الْوِتْرِ، فَقَالَ:" فَرِيضَةٌ، فَقُلْتُ: أَوْ فَقِيلَ لَهُ: فَكَمِ الْفَرْضُ؟ قَالَ: خَمْسُ صَلَوَاتٍ، فَقِيلَ لَهُ: فَمَا تَقُولُ فِي الْوِتْرِ؟ قَالَ: فَرِيضَةٌ، فَقُلْتُ أَوْ فَقِيلَ لَهُ: أَنْتَ لا تُحْسِنُ الْحِسَابَ"
جناب عبدالوارث بن سعید بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام ابوحنیفہ سے پوچھا یا امام ابوحنیفہ سے وتر کے بارے میں پوچھا گیا، تو اُنہوں نے فرمایا کہ وتر فرض ہے۔ تو میں نے کہا یا اُن سے کہا گیا، فرض نمازوں کی تعداد کتنی ہے؟ جواب دیا کہ پانچ نمازیں ہیں۔ تو اُن سے کہا گیا تو آپ وتر کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ فرض ہے - تو میں نے کہا یا اُن سے کہا گیا کہ آپ کو حساب کرنا نہیں آتا۔

تخریج الحدیث:

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.