كِتَابُ: الْوُضُوءِ وضو کے متعلق ابواب 6. (6) بَابُ ذِكْرِ عَلَامَةِ أُمَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِينَ جَعَلَهُمُ اللَّهُ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ بِآثَارِ الْوُضُوءِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، عَلَامَةً يُعْرَفُونَ بِهَا فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت، جسے اللہ تعالیٰ نے بہترین امت بنایا اور انہیں لوگوں کی بھلائی کے لیے پیدا کیا ہے، کی نشانی قیامت کے روز آثار وضو ہو گی جس سے وہ پہچانے جائیں گے
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ایک روز) قبرستان تشریف لے گئے اور وہاں مدفون لوگوں کو سلام کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا: ”(اے) مومن قوم کے گھروالو تم پر سلام ہو، اور بیشک ہم بھی، اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا، تم سے ملنے والے ہیں۔ میری آرزو اور تمنّا ہے کہ ہم ا پنے بھائیوں کو دیکھیں۔“ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، کیا ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بھائی نہیں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم میرے صحابہ ہو، میرے بھائی وہ لوگ ہیں جو ابھی تک (دنیا میں) نہیں آئے اور میں تم سے پہلے کوثر پر ہوں گا“ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو اُمّتی ابھی تک (دنیا میں) نہیں آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُنہیں کیسے پہچانیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارا کیا خیال ہے، اگر کسی آدمی کے سفید پیشانی اور چمکدار پاؤں والے گھوڑے سیاہ فام گھوڑوں میں ملے ہوئے ہوں، تو کیا وہ اپنے گھوڑے پہچان نہیں لے گا؟“ صحابہ نے جواب دیا کہ کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم (وہ ضرورپہچان لے گا)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک وہ آئیں گے تو ان کے چہرے اور ہاتھ پاؤں وضو کے اثر سے چمک رہے ہوں گے، میں حوض کوثر پر ان کا پیش خیمہ ہوں گا، خبردار، میرے حوض سے کچھ لوگوں کو اس طرح دھتکار دیا جاے گا جس طرح گم راہ (بھٹکا ہوا) اُونٹ دھتکار دیا جاتا ہے میں انہیں پکاروں گا، آجاؤ، تو کہا جائے گا، انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد (دین میں) نئے نئے کام ایجاد کر لیے تھے۔ تو میں کہوں گا، (اللہ کی رحمت سے) دور ہو جاؤ دور ہو جاؤ۔“ یہ ابن علیہ کی روایت کے الفاظ ہیں۔
تخریج الحدیث: «صحيح مسلم، كتاب الطهارة، باب استحباب اطالة الغرة والتحجيل فى الوضوء، رقم: 249، سنن نسائي، رقم: 150، سنن ابي داود: 3237، سنن ابن ماجه، رقم: 4306، موطا امام مالك، رقم: 57، احمد 300/2»
|