كِتَابُ: الْوُضُوءِ وضو کے متعلق ابواب 10. (10) بَابُ ذِكْرِ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ اللَّهَ- عَزَّ وَجَلَّ- إِنَّمَا أَوْجَبَ الْوُضُوءَ عَلَى بَعْضِ الْقَائِمِينَ إِلَى الصَّلَاةِ لَا عَلَى كُلِّ قَائِمٍ إِلَى الصَّلَاةِ اس بات کی دلیل کا بیان کہ اللہ تعالیٰ نے نماز کے لیے کھڑے ہونے والے کچھ لوگوں پر وضو فرض کیا ہے (یعنی جن کا وضو ٹوٹ چکا ہو) نہ کہ ہر نماز پڑھنے والے پر
اپنے اس ارشاد گرامی میں «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ» [ سورة المائدة ] ”ایمان والو، جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو اپنے چہرے اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھولو، اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں ٹخنوں سمیت دھولو۔۔۔“ چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اُن پر نازل کردہ ہر خاص و عام حکم کو بیان کرنے والا بنایا ہے لہٰذا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سنّت سے بیان فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر نماز پڑھنے والے کو وضو کا حکم نہیں دیا کچھ لوگوں کو حکم دیا ہے (جن کا وضو ٹوٹ چکا ہو) جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت «خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً» [ سورة التوبة ] (ان کے اموال سے صدقہ لیجیے) کی تفسیر کرتے ہوئے بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ مال بطور صدقہ (زکٰوۃ) لینے کا حکم دیا ہے سارا نہیں۔ (یعنی زکٰوۃ کی مقررہ مقدار) اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال غنیمت سے قرابت داروں کا حصّہ بنی ہاشم اور بنی عبد المطلب میں تقسیم کر کے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان «وَذِي الْقُرْبَىٰ» [ سورة البقرة ] ”اور قرابت داروں کو دو“ کی وضاحت کردی کہ قرابت داروں سے مراد آپ کے بعض رشتہ دار ہیں، سارے نہیں، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ہو «وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا» [ سورة المائدة ] ”چور مرد اور چور عورت کے ہاتھ کاٹ دو“ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اس سے اللہ تعالیٰ کا مقصود بعض چور ہیں نہ کہ سب چور۔ کیونکہ ایک درھم یا اس سے کم قیمت کی چوری کرنے والے پر بھی لفظ چور کا اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا: ”چوتھائی دینار یا اس سے زیادہ قیمت کی چیز چوری کرنے پر چور کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔“ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس فرمان سے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد گرامی «وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا» [ سورة المائدة ] کی وضاحت فرمادی کہ اس سے مراد بعض چور ہیں (جو چوتھائی دینار تک کی چوری کریں) اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا «وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ» [ سورة النحل ] یہ ذکر (قرآن مجید) ہم نے آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی طرف اتارا ہے تا کہ لوگوں کی جانب جو نازل کیا گیا ہے آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اسے کھول کھول کر بیان کردیں۔
سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے وقت وضو کیا کرتے تھے۔ پھر جب فتح مکّہ کا دن آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا اور ایک ہی وضو سے کئی نمازیں ادا کیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، (آج) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا عمل کیا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے نہیں کیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عمر، میں نے ایسا جان بوجھ کر کیا ہے۔“ (یہ بتانے کے لیے کہ وضو باقی ہو تو ہر نماز کے لیے دوبارہ وضو کرنا ضروری نہیں ہے۔) یہ عبدالرحمان بن مہدی کی روایت ہے۔
تخریج الحدیث: «صحيح مسلم، كتاب الطهارة، باب جواز الصلوات كلها بوضوء واحد، رقم الحديث: 277، سنن ترمذي: 61، نسائي: 132، سنن ابي داود: 172، سنن ابن ماجه: 503، مسند احمد: 350/5، 351، 358، 41888، سنن الدارمي: 659»
سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکّہ کے دن کے سوا ہر نماز کے لیے وضو کیا کرتے تھے۔ (اس روز) آپ صلی اللہ علیہ وسلم مشغول ہو گئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہی وضو سے ظہر اور عصر (کی نمازوں) کو جمع کر کے ادا کیا۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم، کتاب الطهارة، باب جواز الصلوات كلها بوضوء واحد، رقم الحدیث: 277، سنن ترمذی: 61، سنن ابی داود: 172، سنن نسائی: 133، سنن ابن ماجة: 503، مسند احمد: 41888، سنن الدارمی: 659»
حضرت سلیمان اپنے والد سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے لیے وضو کیا کرتے تھے۔ پھر فتح مکہ والے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام نمازیں ایک ہی وضو سے ادا کیں۔ امام ابوبکر رحمہ الله فرماتے ہیں کہ معمر اور وکیع کے سوا کسی نے یہ روایت امام سفیان ثوری سے مسند بیان نہیں کی۔ امام سفیان ثوری کے شاگرد معمر اور وکیع کے علاوہ دوسرے راویوں نے یہ روایت امام سفیان سے، انہوں نے محارب سے انہوں نے سلیمان بن بریدہ سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کی ہے۔ جلیل القدر معتمر اور وکیع نے اگرچہ سند اور اس کے اتصال کو حفظ کیا ہے مگر یہ روایت نہایت غریب ہے۔
تخریج الحدیث: «اسناده صحیح، سنن ابن ماجة، كتاب الطهارة، باب الوض لكل صلاة و الصلوات كلها بوضوء واحد، رقم الحديث: 510، اصله في صحيح مسلم، رقم الحديث: 277»
|