كِتَابُ: الْوُضُوءِ وضو کے متعلق ابواب 5. (5) بَابُ ذِكْرِ حَطِّ الْخَطَايَا، وَرَفْعِ الدَّرَجَاتِ فِي الْجَنَّةِ بِإِسْبَاغِ الْوُضُوءِ عَلَى الْمَكَارِهِ، وَإِعْطَاءِ مُنْتَظِرِ الصَّلَاةِ بَعْدَ الصَّلَاةِ أَجْرَ الْمُرَابِطِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ مشقت اور تکلیف کے باوجود مکمل وضو کرنے سے گناہوں کے معاف ہونے، جنت میں درجات کی بلندی اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنے والے کو جہاد فی سبیل اللہ کرنے والے کے برابر ثواب دیے جانے کا بیان
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں ایسا عمل نہ بتاؤں جس سے اللہ تعالیٰ گناہ مٹا دیتا ہے اور درجات بلند کرتا ہے؟“ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی کہ کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، (ضرور فرمائیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مشقّت اور تکلیف کے باوجود مکمل وضو کرنا، مساجد کی طرف زیادہ قدم چل کر جانا (یعنی مسجد دور ہونے کے باوجود نماز کے لیے مسجد آنا) اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا، یہی تمہارا جہاد ہے، یہی تمہارا جہاد ہے۔“ دونوں مرتبہ، «فَذَالِكُم’الرِّبَاطَ» ”یہی تمہارا جہاد ہے“ فرمایا۔ (حدیث کے راوی) علی بن حجر کی روایت میں «فَذَالِكُم’الرِّبَاطَ» ایک مرتبہ ہے۔ یونس بن عبد الاعلیٰ کی روایت میں «الا ادلكم» کی بجائے «اخبركم» ، ”میں تمہیں ایسے عمل کی خبر نہ دوں“ کے الفاظ ہیں۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی «بلىٰ» ”کیوں نہیں“، (ضرور بیان فرمائیں) کے الفاظ نہیں ہیں۔
تخریج الحدیث: «صحيح مسلم، كتاب الطهارة، باب فضل اسباغ الوضوء على المكاره، رقم: 251، سنن ترمذي، رقم: 51، سنن نسائي، رقم: 143، فى الكبرى 89/1، 138، مسند احمد، رقم: 6911، موطا امام مالك رقم: 348، ابن ماجه رقم: 428»
|