كِتَابُ النِّكَاحِ کتاب: نکاح کے بیان میں 11. بَابُ جَامِعِ مَا لَا يَجُوزُ مِنَ النِّكَاحِ جو نکاح درست نہیں اس کا بیان
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شغار سے منع کیا ہے۔ شغار یہ ہے کہ ایک شخص اپنی بیٹی کا نکاح ایک شخص سے کر دے اس شرط پر کہ دوسرا شخص اپنی بیٹی کا نکاح اس سے کر دے، سوا اس کے کچھ مہر نہ ہو۔
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5112، 6960، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1415،وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4152، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3339، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5470، 5473، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2074، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1124، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2226، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1883، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14177، 14178، وأحمد فى «مسنده» برقم: 4614، 4783، فواد عبدالباقي نمبر: 28 - كِتَابُ النِّكَاحِ-ح: 24»
حضرت خنساء بنت خدام کا نکاح اس کے باپ نے کر دیا اور وہ ثیبہ تھیں، اور اس نکاح سے ناراض تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نکاح فسخ کر دیا۔
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5138، 5139، 6945، 6969، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3270، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5361، 5362، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2101، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2237، 2238، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1873، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 576، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 13729، وأحمد فى «مسنده» برقم: 27428، 27429، فواد عبدالباقي نمبر: 28 - كِتَابُ النِّكَاحِ-ح: 25»
حضرت ابوزبیر سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک نکاح کا ذکر آیا جس کا کوئی گواہ نہ تھا سوائے ایک مرد اور ایک عورت کے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ چوری چھپے کا نکاح میں جائز نہیں رکھتا، اگر میں پہلے اس کو بیان کر چکا ہوتا تو اب میں رجم کرتا۔
تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 13771، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 4103، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 627، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 16391، فواد عبدالباقي نمبر: 28 - كِتَابُ النِّكَاحِ-ح: 26»
حضرت سعید بن مسیّب اور سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ طلیحہ اسدیہ رشید ثقفی کے نکاح میں تھیں، انہوں نے طلاق دی تو طلیحہ نے عدت کے اندر دوسرے شخص سے نکاح کر لیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے دونوں کو کوڑے مارے اور نکاح چھڑوا دیا۔ پھر فرمایا کہ عورت عدت میں نکاح کرے کسی اور شخص سے تو اگر جماع نہ کیا ہو تو نکاح چھوڑا کر پہلے خاوند کی جس قدر عدت باقی ہو پوری کرے، اب جس سے جی چاہے نکاح کرے، مگر دوسرے خاوند سے زندگی بھر کبھی نکاح نہیں ہو سکتا۔ سعید بن مسیّب نے کہا کہ وہ عورت دوسرے خاوند سے اپنا مہر لے سکتی ہے۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 15539، والبيهقي فى «سننه الصغير» برقم: 2821، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 4680، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 694، 695، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 10539، 10540، 10541، 10542، 10543، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 17477، 17478، 17483، 19124، والطحاوي فى «شرح معاني الآثار» برقم: 4888، 4889، 4890، فواد عبدالباقي نمبر: 28 - كِتَابُ النِّكَاحِ-ح: 27»
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: جو عورت آزاد ہو اس کا خاوند مر جائے اور چار مہینے دس دن عدت کرلے، پھر حمل کا گمان ہو تو نکاح نہ کرے جب تک یہ گمان رفع نہ ہو یا وضع حمل ہو۔
تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 28 - كِتَابُ النِّكَاحِ-ح: 27»
|