كِتَابُ الْجَنَائِزِ کتاب: جنازوں کے بیان میں 14. بَابُ جَامِعِ الْحِسْبَةِ فِي الْمُصِيبَةِ مصیبت میں صبر کرنے کی مختلف حدیثیں
حضرت عبدالرحمٰن بن قاسم رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے: ”مسلمانوں کی تمام مصیبتیں ہلکی ہو جاتی ہیں میری مصیبت کو یاد کر کے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح لغيره، وأخرجه ابن ماجه فى «سننه» برقم: 1599، والدارمي فى «سننه» برقم: 84، 85، شركة الحروف نمبر: 513، فواد عبدالباقي نمبر: 16 - كِتَابُ الْجَنَائِزِ-ح: 41»
اُم المؤمنین سیدہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص کو کوئی مصیبت پہنچے پھر وہ جیسا اس کو اللہ نے حکم کیا ہے «﴿إِنَّا لِلّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ﴾» کہہ کر کہے: اے پروردگار! مجھ کو اس مصیبت میں اجر دے، اور اس سے بہتر نیک بدلہ مجھے عنایت فرما۔ تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کے ساتھ ایسا ہی کرے گا۔“ سیدہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: جب میرے خاوند نے وفات پائی تو میں نے یہی دعا مانگی، پھر میں نے اپنے جی میں کہا: ابوسلمہ سے کون بہتر ہو گا، سو اللہ تعالیٰ نے اس کا بدلہ دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکا ح کیا۔
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 918، 1460، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2949، 4065، 4210، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 2750، 6705، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3256، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5375، 8876، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2122، 3119، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3511، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2256، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1598، 1917، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7225، وأحمد فى «مسنده» برقم: 16602، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 6701، 10644، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 17224، شركة الحروف نمبر: 514، فواد عبدالباقي نمبر: 16 - كِتَابُ الْجَنَائِزِ-ح: 42»
حضرت قاسم بن محمد رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میری زوجہ مرگئی سو آئے محمد بن کعب قرظی تعزیت دینے مجھ کو اور کہا: بنی اسرائیل میں ایک شخص فقیہ عالم عابد مجتہد تھا، اور اس کی ایک بیوی تھی جس پر وہ نہایت شیفتہ تھا اور اس کو بہت چاہتا تھا، اتفاق سے وہ عورت مر گئی تو اس شخص کو نہایت رنج ہوا اور بڑا افسوس ہوا، اور وہ ایک گھر میں دروازہ بند کر کے بیٹھ رہا اور لوگوں سے ملاقات چھوڑ دی، تو اس کے پاس کوئی نہ جاتا تھا، ایک عورت نے یہ قصہ سنا اور اس کے دروازے پر جا کر کہا: مجھ کو ایک مسئلہ پوچھنا ہے، میں اسی سے پوچھوں گی، بغیر اس سے ملے ہوئے یہ کام نہیں ہو سکتا، تو اور جتنے لوگ آئے تھے وہ چلے گئے اور وہ عورت دروازے پر جمی رہی اور کہا کہ بغیر اس سے طے کیے کوئی علاج نہیں ہے، سو ایک شخص نے اندر جا کر اطلاع دی اور بیان کیا کہ ایک عورت تم سے مسئلہ پوچھنے کو آئی ہے، اور وہ کہتی ہے کہ میں تم سے ملنا چاہتی ہوں، تو سب لوگ چلے گئے مگر وہ عورت دروازہ چھوڑ کر نہیں جاتی، تب اس شخص نے کہا: اچھا اس کو آنے دو، پس آئی وہ عورت اس کے پاس اور کہا کہ میں ایک مسئلہ تجھ سے پوچھنے کو آئی ہوں، وہ بولا: کیا مسئلہ ہے؟ اس عورت نے کہا: میں نے اپنے ہمسایہ میں ایک عورت سے کچھ زیور مانگ کر لیا تھا، تو میں نے ایک مدت تک اس کو پہنا اور لوگوں کو مانگنے پر دیا، اب اس عورت نے وہ زیور مانگ بھیجا ہے، کیا میں اسے پھر دے دوں؟ اس شخص نے کہا: ہاں قسم اللہ کی! پھیر دے۔ عورت نے کہا کہ وہ زیور ایک مدت تک میرے پاس رہا ہے، اس شخص نے کہا کہ اس سبب سے اور زیادہ تجھے پھیرنا ضروری ہے، کیونکہ ایک زمانے تک تجھے اس نے مانگنے پر دیا۔ عورت بولی: اے فلانے! اللہ تجھ پر رحم کرے، تو کیوں افسوس کرتا ہے اس چیز پر جو اللہ جل جلالہُ نے تجھے مستعار دی تھی، پھر تجھ سے لے لی، اللہ جل جلالہُ زیادہ حق دار ہے تجھ سے۔ جب اس شخص نے غور کیا اور عورت کی بات سے اللہ تعالیٰ نے اس کو نفع دیا۔
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، انفرد به المصنف من هذا الطريق، شركة الحروف نمبر: 515، فواد عبدالباقي نمبر: 16 - كِتَابُ الْجَنَائِزِ-ح: 43»
|