ایک مرتبہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کے چچا ابوطالب آپ کا بہت دفاع کیا کرتے تھے، آپ کی وجہ سے انہیں کیا فائدہ ہوا؟ فرمایا: ”وہ جہنم کے اوپر والے حصے میں ہیں، اگر میں نہ ہوتا تو وہ جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوتے۔“
سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب انسان سجدہ کرتا ہے تو اس کے ساتھ سات ہڈیاں سجدہ کرتی ہیں: چہرہ، دونوں ہاتھ، دونوں پاؤں اور دونوں گھٹنے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن بكر ، حدثنا حاتم يعني ابن ابي صغيرة ، حدثني بعض بني عبد المطلب، قال: قدم علينا علي بن عبد الله بن عباس في بعض تلك المواسم، قال: فسمعته يقول: حدثني ابي عبد الله بن عباس ، عن ابيه العباس ، انه اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقال: يا رسول الله، انا عمك، كبرت سني واقترب اجلي فعلمني شيئا ينفعني الله به، قال:" يا عباس، انت عمي , ولا اغني عنك من الله شيئا، ولكن سل ربك العفو والعافية في الدنيا والآخرة"، قالها ثلاثا، ثم اتاه عند قرن الحول، فقال له مثل ذلك.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَكْرٍ ، حَدَّثَنَا حَاتِمٌ يَعْنِي ابْنَ أَبِي صَغِيرَةَ ، حَدَّثَنِي بَعْضُ بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، قَالَ: قَدِمَ عَلَيْنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ فِي بَعْضِ تِلْكَ الْمَوَاسِمِ، قَالَ: فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: حَدَّثَنِي أَبِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ ، عَنْ أَبِيهِ الْعَبَّاسِ ، أَنَّهُ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَا عَمُّكَ، كَبِرَتْ سِنِّي وَاقْتَرَبَ أَجَلِي فَعَلِّمْنِي شَيْئًا يَنْفَعُنِي اللَّهُ بِهِ، قَالَ:" يَا عَبَّاسُ، أَنْتَ عَمِّي , وَلَا أُغْنِي عَنْكَ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، وَلَكِنْ سَلْ رَبَّكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ"، قَالَهَا ثَلَاثًا، ثُمَّ أَتَاهُ عِنْدَ قَرْنِ الْحَوْلِ، فَقَالَ لَهُ مِثْلَ ذَلِكَ.
ایک مرتبہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگے: یا رسول اللہ! میں آپ کا چچا ہوں، میں بوڑھا ہوچکا ہوں اور میری موت کا وقت قریب ہے، مجھے کوئی ایسی دعا سکھا دیجئے جس کے ذریعے اللہ مجھے نفع عطاء فرمائے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عباس! آپ واقعی میرے چچا ہیں، لیکن میں اللہ کے معاملے میں آپ کے کسی کام نہیں آ سکتا، البتہ آپ اپنے رب سے دنیا و آخرت میں درگزر اور عافیت کی دعا مانگتے رہا کریں۔“ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمائی، پھر سیدنا عباس رضی اللہ عنہ ایک سال بعد دوبارہ آئے، تب بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہی دعا تلقین فرمائی۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة الرجل من بني المطلب.
ایک مرتبہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کے چچا ابوطالب آپ کا بہت دفاع کیا کرتے تھے، آپ کی وجہ سے انہیں کیا فائدہ ہوا؟ فرمایا: ”وہ جہنم کے اوپر والے حصے میں ہیں، اگر میں نہ ہوتا تو وہ جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوتے۔“
سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب انسان سجدہ کرتا ہے تو اس کے ساتھ سات ہڈیاں سجدہ کرتی ہیں: چہرہ، دونوں ہاتھ، دونوں پاؤں اور دونوں گھٹنے۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م:491، وفي هذا الإسناد ابن لهيعة سيء الحفظ لكنه توبع.
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، انبانا يحيى بن العلاء ، عن عمه شعيب بن خالد ، حدثني سماك بن حرب ، عن عبد الله بن عميرة ، عن عباس بن عبد المطلب ، قال: كنا جلوسا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بالبطحاء، فمرت سحابة , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اتدرون ما هذا؟" , قال: قلنا: السحاب، قال:" والمزن"، قلنا: والمزن، قال:" والعنان"، قال: فسكتنا، فقال:" هل تدرون كم بين السماء والارض؟" , قال: قلنا: الله ورسوله اعلم، قال:" بينهما مسيرة خمس مائة سنة، ومن كل سماء إلى سماء مسيرة خمس مائة سنة، وكثف كل سماء مسيرة خمس مائة سنة، وفوق السماء السابعة بحر بين اسفله واعلاه كما بين السماء والارض، ثم فوق ذلك ثمانية اوعال بين ركبهن واظلافهن كما بين السماء والارض، ثم فوق ذلك العرش بين اسفله واعلاه كما بين السماء والارض، والله تبارك وتعالى فوق ذلك وليس يخفى عليه من اعمال بني آدم شيء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَنْبَأَنَا يَحْيَى بْنُ الْعَلَاءِ ، عَنْ عَمِّهِ شُعَيْبِ بْنِ خَالِدٍ ، حَدَّثَنِي سِمَاكُ بْنُ حَرْبٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمِيرَةَ ، عَنْ عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْبَطْحَاءِ، فَمَرَّتْ سَحَابَةٌ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَتَدْرُونَ مَا هَذَا؟" , قَالَ: قُلْنَا: السَّحَابُ، قَالَ:" وَالْمُزْنُ"، قُلْنَا: وَالْمُزْنُ، قَالَ:" وَالْعَنَانُ"، قَالَ: فَسَكَتْنَا، فَقَالَ:" هَلْ تَدْرُونَ كَمْ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ؟" , قَالَ: قُلْنَا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ:" بَيْنَهُمَا مَسِيرَةُ خَمْسِ مِائَةِ سَنَةٍ، وَمِنْ كُلِّ سَمَاءٍ إِلَى سَمَاءٍ مَسِيرَةُ خَمْسِ مِائَةِ سَنَةٍ، وَكِثَفُ كُلِّ سَمَاءٍ مَسِيرَةُ خَمْسِ مِائَةِ سَنَةٍ، وَفَوْقَ السَّمَاءِ السَّابِعَةِ بَحْرٌ بَيْنَ أَسْفَلِهِ وَأَعْلَاهُ كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، ثُمَّ فَوْقَ ذَلِكَ ثَمَانِيَةُ أَوْعَالٍ بَيْنَ رُكَبِهِنَّ وَأَظْلَافِهِنَّ كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، ثُمَّ فَوْقَ ذَلِكَ الْعَرْشُ بَيْنَ أَسْفَلِهِ وَأَعْلَاهُ كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، وَاللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى فَوْقَ ذَلِكَ وَلَيْسَ يَخْفَى عَلَيْهِ مِنْ أَعْمَالِ بَنِي آدَمَ شَيْءٌ".
سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ وادی بطحاء میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ وہاں سے ایک بادل گذرا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جانتے ہو، یہ کیا ہے؟“ ہم نے کہا: اسے سحاب (بادل) کہتے ہیں، فرمایا: ”مزن بھی کہتے ہیں؟“ ہم نے عرض کیا: جی ہاں! مزن بھی کہتے ہیں، پھر فرمایا: ”اسے عنان بھی کہتے ہیں؟“ اس پر ہم خاموش رہے۔ پھر فرمایا: ”کیا تم جانتے ہو کہ آسمان اور زمین کے درمیان کتنا فاصلہ ہے؟“ ہم نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، فرمایا: ”آسمان اور زمین کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے، اسی طرح ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک بھی پانچ سو سال کا فاصلہ ہے، اور ہر آسمان کی کثافت پانچ سو سال کی ہے، پھر ساتویں آسمان کے اوپر ایک سمندر ہے، اس سمندر کی سطح اور گہرائی میں زمین و آسمان کا فاصلہ ہے، پھر اس کے اوپر آٹھ پہاڑی بکرے ہیں جن کے گھٹنوں اور کھروں کے درمیان زمین و آسمان جتنا فاصلہ ہے، پھر اس کے اوپر عرش ہے جس کے اوپر اور نیچے والے حصے کے درمیان زمین و آسمان جتنا فاصلہ ہے، اور سب سے اوپر اللہ تبارک وتعالی ہے جس سے بنی آدم کا کوئی عمل بھی مخفی نہیں۔“
سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! قریش کے لوگ جب ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو بڑے ہشاش بشاش چہرے کے ساتھ ملتے ہیں، اور جب ہم سے ملتے ہیں تو اجنبیوں کی طرح؟ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سخت ناراض ہوئے اور فرمایا: ”اس ذات کی قسم! جس کے دست قدرت میں میری جان ہے، کسی شخص کے دل میں اس وقت تک ایمان داخل نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ تم سے اللہ اور اس کے رسول کی خاطر محبت نہ کرنے لگے۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، يزيد بن أبى زياد ضعيف.
ایک مرتبہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کے چچا ابوطالب آپ کا بہت دفاع کیا کرتے تھے، آپ کی وجہ سے انہیں کیا فائدہ ہوا؟ فرمایا: ”وہ جہنم کے اوپر والے حصے میں ہیں، اگر میں نہ ہوتا تو وہ جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوتے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا معمر ، عن الزهري ، اخبرني كثير بن عباس بن عبد المطلب ، عن ابيه العباس ، قال: شهدت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم حنينا، قال: فلقد رايت النبي صلى الله عليه وسلم، وما معه إلا انا وابو سفيان بن الحارث بن عبد المطلب، فلزمنا رسول الله صلى الله عليه وسلم فلم نفارقه، وهو على بغلة شهباء، وربما قال معمر: بيضاء، اهداها له فروة بن نعامة الجذامي، فلما التقى المسلمون والكفار، ولى المسلمون مدبرين، وطفق رسول الله صلى الله عليه وسلم يركض بغلته قبل الكفار، قال العباس: وانا آخذ بلجام بغلة رسول الله صلى الله عليه وسلم اكفها، وهو لا يالو ما اسرع نحو المشركين، وابو سفيان بن الحارث آخذ بغرز رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا عباس ناد يا اصحاب السمرة"، قال: وكنت رجلا صيتا، فقلت باعلى صوتي: اين اصحاب السمرة؟ قال: فوالله لكان عطفتهم حين سمعوا صوتي عطفة البقر على اولادها، فقالوا: يا لبيك يا لبيك يا لبيك، واقبل المسلمون فاقتتلوا هم والكفار، فنادت الانصار يقولون: يا معشر الانصار، ثم قصرت الداعون على بني الحارث بن الخزرج، فنادوا يا بني الحارث بن الخزرج، قال: فنظر رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو على بغلته، كالمتطاول عليها إلى قتالهم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" هذا حين حمي الوطيس"، قال: ثم اخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم حصيات، فرمى بهن وجوه الكفار، ثم قال:" انهزموا ورب الكعبة، انهزموا ورب الكعبة"، قال فذهبت انظر، فإذا القتال على هيئته فيما ارى، قال: فوالله ما هو إلا ان رماهم رسول الله صلى الله عليه وسلم بحصياته، فما زلت ارى حدهم كليلا، وامرهم مدبرا، حتى هزمهم الله، قال: وكاني انظر إلى النبي صلى الله عليه وسلم يركض خلفهم على بغلته.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، أَخْبَرَنِي كَثِيرُ بْنُ عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، عَنْ أَبِيهِ الْعَبَّاسِ ، قَالَ: شَهِدْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُنَيْنًا، قَالَ: فَلَقَدْ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَا مَعَهُ إِلَّا أَنَا وَأَبُو سُفْيَانَ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَلَزِمْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ نُفَارِقْهُ، وَهُوَ عَلَى بَغْلَةٍ شَهْبَاءَ، وَرُبَّمَا قَالَ مَعْمَرٌ: بَيْضَاءَ، أَهْدَاهَا لَهُ فَرْوَةُ بْنُ نَعَامَةَ الْجُذَامِيُّ، فَلَمَّا الْتَقَى الْمُسْلِمُونَ وَالْكُفَّارُ، وَلَّى الْمُسْلِمُونَ مُدْبِرِينَ، وَطَفِقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْكُضُ بَغْلَتَهُ قِبَلَ الْكُفَّارِ، قَالَ الْعَبَّاسُ: وَأَنَا آخِذٌ بِلِجَامِ بَغْلَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكُفُّهَا، وَهُوَ لَا يَأْلُو مَا أَسْرَعَ نَحْوَ الْمُشْرِكِينَ، وَأَبُو سُفْيَانَ بْنُ الْحَارِثِ آخِذٌ بِغَرْزِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا عَبَّاسُ نَادِ يَا أَصْحَابَ السَّمُرَةِ"، قَالَ: وَكُنْتُ رَجُلًا صَيِّتًا، فَقُلْتُ بِأَعْلَى صَوْتِي: أَيْنَ أَصْحَابُ السَّمُرَةِ؟ قَالَ: فَوَاللَّهِ لَكَأَنَّ عَطْفَتَهُمْ حِينَ سَمِعُوا صَوْتِي عَطْفَةُ الْبَقَرِ عَلَى أَوْلَادِهَا، فَقَالُوا: يَا لَبَّيْكَ يَا لَبَّيْكَ يَا لَبَّيْكَ، وَأَقْبَلَ الْمُسْلِمُونَ فَاقْتَتَلُوا هُمْ وَالْكُفَّارُ، فَنَادَتْ الْأَنْصَارُ يَقُولُونَ: يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، ثُمَّ قَصَّرَتْ الدَّاعُونَ عَلَى بَنِي الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ، فَنَادَوْا يَا بَنِي الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ، قَالَ: فَنَظَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى بَغْلَتِهِ، كَالْمُتَطَاوِلِ عَلَيْهَا إِلَى قِتَالِهِمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَذَا حِينَ حَمِيَ الْوَطِيسُ"، قَالَ: ثُمَّ أَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَصَيَاتٍ، فَرَمَى بِهِنَّ وُجُوهَ الْكُفَّارِ، ثُمَّ قَالَ:" انْهَزَمُوا وَرَبِّ الْكَعْبَةِ، انْهَزَمُوا وَرَبِّ الْكَعْبَةِ"، قَالَ فَذَهَبْتُ أَنْظُرُ، فَإِذَا الْقِتَالُ عَلَى هَيْئَتِهِ فِيمَا أَرَى، قَالَ: فَوَاللَّهِ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ رَمَاهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَصَيَاتِهِ، فَمَا زِلْتُ أَرَى حَدَّهُمْ كَلِيلًا، وَأَمْرَهُمْ مُدْبِرًا، حَتَّى هَزَمَهُمْ اللَّهُ، قَالَ: وَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْكُضُ خَلْفَهُمْ عَلَى بَغْلَتِهِ.
سیدنا عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ غزوہ حنین کے موقع پر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھا، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میرے اورابوسفیان بن حارث کے علاوہ کوئی نہ تھا، ہم دونوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چمٹے رہے اور کسی صورت جدا نہ ہوئے، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سفید خچر پر سوار تھے جو انہیں فروہ بن نعامہ الجذامی نے ہدیہ کے طور پر پیش کیا تھا۔ جب مسلمان اور کفار آمنے سامنے ہوئے تو ابتدائی طور پر مسلمان پشت پھیر کر بھاگ کھڑے ہوئے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بار بار ایڑ لگا کر اپنے خچر پر کفار کی طرف بڑھنے لگے، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خچر کی لگام پکڑ رکھی تھی اور میں اسے آگے جانے سے روک رہا تھا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین کی طرف تیزی سے بڑھنے میں کوئی کوتاہی نہ کر رہے تھے،ابوسیفان بن حارث نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کی رکاب تھام رکھی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کا رخ دیکھ کر فرمایا: ”عباس! یا اصحاب السمرۃ کہہ کر مسلمانوں کو پکارو۔“ میری آواز طبعی طور پر اونچی تھی اس لئے میں نے اونچی آواز سے پکار کر کہا: این اصحاب السمرۃ؟ واللہ! یہ آواز سنتے ہی مسلمان ایسے پلٹے جیسے گائے اپنی اولاد کی طرف واپس پلٹتی ہے، اور لبیک کہتے ہوئے آگے بڑھے اور کفار پر جا پڑے۔ ادھر انصار نے اپنے ساتھیوں کو پکارتے ہوئے کہا: اے گروہ انصار! پھر منادی کرنے والوں نے صرف بنو حارث بن خزرج کا نام لے کر انہیں پکارا، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کیفیت کو اپنے خچر پر سوار ملاحظہ فرمایا اور ایسا محسوس ہوا کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی آگے بڑھ کر قتال میں شریک ہونا چاہتے ہیں، تو فرمایا: ”اب گھمسان کا رن پڑا ہے“، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چند کنکریاں اٹھائیں اور کفار کے چہروں پر انہیں پھینکتے ہوئے فرمایا: ”رب کعبہ کی قسم! انہیں شکست ہو گئی، رب کعبہ کی قسم! انہیں شکست ہو گئی۔“ میں جائزہ لینے کے لئے آگے بڑھا تو میرا خیال یہ تھا کہ لڑائی تو ابھی اسی طرح جاری ہے، لیکن واللہ! جیسے ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر کنکریاں پھینکیں تو مجھے محسوس ہوا کہ ان کی تیزی سستی میں تبدیل ہو رہی ہے، اور ان کا معاملہ پشت پھیر کر بھاگنے کے قریب ہے، چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اللہ نے انہیں شکست سے دو چار کر دیا، اور مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا میں اب بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے خچر پر سوار ان کی طرف ایڑ لگا کر جاتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، قال: سمعت الزهري مرة او مرتين، فلم احفظه، عن كثير بن عباس ، قال: كان عباس وابو سفيان معه، يعني النبي صلى الله عليه وسلم، قال: فخطبهم، وقال:" الآن حمي الوطيس" وقال:" ناد يا اصحاب سورة البقرة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، قَالَ: سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ، فَلَمْ أَحْفَظْهُ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: كَانَ عَبَّاسٌ وَأَبُو سُفْيَانَ مَعَهُ، يعني النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَخَطَبَهُمْ، وَقَالَ:" الْآنَ حَمِيَ الْوَطِيسُ" وَقَالَ:" نَادِ يَا أَصْحَابَ سُورَةِ الْبَقَرَةِ".
سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ اور سیدناابوسفیان رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ ارشاد فرمایا، اور فرمایا کہ ”اب گھمسان کا رن پڑا ہے۔“ اور فرمایا: ”یہ آواز لگاؤ: یا اصحاب سورۃ البقرۃ۔“
عبدالمطلب بن ربیعہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم لوگ باہر نکلتے ہیں اور دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ قریش کے لوگ آپس میں باتیں کر رہے ہیں لیکن ہمیں دیکھ کر وہ خاموش ہو جاتے ہیں، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ آیا اور دونوں آنکھوں کے درمیان موجود رگ پھول گئی، پھر فرمایا: ”اللہ کی قسم! کسی شخص کے دل میں اس وقت تک ایمان داخل نہیں ہو سکتا جب تک وہ اللہ کی رضا کے لئے اور میری قرابت کی وجہ سے تم سے محبت نہ کرنے لگے۔“
سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”اس شخص نے ایمان کا مزہ چکھ لیا جو اللہ کو رب مان کر، اسلام کو دین مان کر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغمبر مان کر راضی اور مطمئن ہو گیا۔“
سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”اس شخص نے ایمان کا مزہ چکھ لیا جو اللہ کو رب مان کر، اسلام کو دین مان کر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغمبر مان کر راضی اور مطمئن ہو گیا۔“
سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب انسان سجدہ کرتا ہے تو اس کے ساتھ سات ہڈیاں سجدہ کرتی ہیں: چہرہ، دونوں ہاتھ، دونوں پاؤں اور دونوں گھٹنے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا ابو اليمان ، انبانا شعيب ، عن الزهري ، اخبرني مالك بن اوس بن الحدثان النصري ، ان عمر دعاه... فذكر الحديث، قال: فبينا انا عنده إذ جاء حاجبه يرفا، فقال: هل لك في عثمان , وعبد الرحمن , والزبير , وسعد يستاذنون؟ قال: نعم، فادخلهم، فلبث قليلا، ثم جاءه، فقال: هل لك في علي , وعباس يستاذنان؟ قال: نعم، فاذن لهما، فلما دخلا , قال عباس: يا امير المؤمنين، اقض بيني وبين هذا لعلي، وهما يختصمان في الصوافي التي افاء الله على رسوله من اموال بني النضير، فقال الرهط: يا امير المؤمنين، اقض بينهما وارح احدهما من الآخر، قال عمر : اتئدوا، اناشدكم بالله الذي بإذنه تقوم السماء والارض، هل تعلمون ان النبي صلى الله عليه وسلم , قال:" لا نورث ما تركنا صدقة"، يريد نفسه؟ قالوا: قد قال ذلك، فاقبل عمر على علي وعلى العباس ، فقال: انشدكما بالله، اتعلمان ان النبي صلى الله عليه وسلم , قال ذلك؟ قالا: نعم، قال: فإني احدثكم عن هذا الامر إن الله عز وجل كان خص رسوله في هذا الفيء بشيء لم يعطه احدا غيره، فقال وما افاء الله على رسوله منهم فما اوجفتم إلى قدير سورة الحشر آية 6 , فكانت هذه خاصة لرسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم والله ما احتازها دونكم، ولا استاثر بها عليكم، لقد اعطاكموها وبثها فيكم، حتى بقي منها هذا المال، فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم ينفق على اهله نفقة سنتهم من هذا المال، ثم ياخذ ما بقي فيجعله مجعل مال الله، فعمل بذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم حياته، ثم توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقال ابو بكر: انا ولي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقبضه ابو بكر فعمل فيه بما عمل فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، أَنْبَأَنَا شُعَيْبٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، أَخْبَرَنِي مَالِكُ بْنُ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ النَّصْرِيُّ ، أَنَّ عُمَرَ دَعَاهُ... فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، قَالَ: فَبَيْنَا أَنَا عِنْدَهُ إِذْ جَاءَ حَاجِبُهُ يَرْفَأُ، فَقَالَ: هَلْ لَكَ فِي عُثْمَانَ , وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ , وَالزُّبَيْرِ , وَسَعْدٍ يَسْتَأْذِنُونَ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَأَدْخَلَهُمْ، فَلَبِثَ قَلِيلًا، ثُمَّ جَاءَهُ، فَقَالَ: هَلْ لَكَ فِي عَلِيٍّ , وَعَبَّاسٍ يَسْتَأْذِنَانِ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَأَذِنَ لَهُمَا، فَلَمَّا دَخَلَا , قَالَ عَبَّاسٌ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ هَذَا لَعَلِيٍّ، وَهُمَا يَخْتَصِمَانِ فِي الصَّوَافِي الَّتِي أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ أَمْوَالِ بَنِي النَّضِيرِ، فَقَالَ الرَّهْطُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، اقْضِ بَيْنَهُمَا وَأَرِحْ أَحَدَهُمَا مِنَ الْآخَرِ، قَالَ عُمَرُ : اتَّئِدُوا، أُنَاشِدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ، هَلْ تَعْلَمُونَ أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ"، يُرِيدُ نَفْسَهُ؟ قَالُوا: قَدْ قَالَ ذَلِكَ، فَأَقْبَلَ عُمَرُ عَلَى عَلِيٍّ وَعَلَى الْعَبَّاسِ ، فَقَالَ: أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ، أَتَعْلَمَانِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ ذَلِكَ؟ قَالَا: نَعَمْ، قَالَ: فَإِنِّي أُحَدِّثُكُمْ عَنْ هَذَا الْأَمْرِ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ كَانَ خَصَّ رَسُولَهُ فِي هَذَا الْفَيْءِ بِشَيْءٍ لَمْ يُعْطِهِ أَحَدًا غَيْرَهُ، فَقَالَ وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ إِلَى قَدِيرٌ سورة الحشر آية 6 , فَكَانَتْ هَذِهِ خَاصَّةً لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ وَاللَّهِ مَا احْتَازَهَا دُونَكُمْ، وَلَا اسْتَأْثَرَ بِهَا عَلَيْكُمْ، لَقَدْ أَعْطَاكُمُوهَا وَبَثَّهَا فِيكُمْ، حَتَّى بَقِيَ مِنْهَا هَذَا الْمَالُ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنْفِقُ عَلَى أَهْلِهِ نَفَقَةَ سَنَتِهِمْ مِنْ هَذَا الْمَالِ، ثُمَّ يَأْخُذُ مَا بَقِيَ فَيَجْعَلُهُ مَجْعَلَ مَالِ اللَّهِ، فَعَمِلَ بِذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيَاتَهُ، ثُمَّ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَبَضَهُ أَبُو بَكْرٍ فَعَمِلَ فِيهِ بِمَا عَمِلَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
مالک بن اوس بن حدثان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مجھے پیغام بھیج کر بلوایا، ابھی ہم بیٹھے ہوئے تھے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا غلام - جس کا نام یرفا تھا - اندر آیا اور کہنے لگا کہ سیدنا عثمان، سیدنا عبدالرحمن، سیدنا سعد اور سیدنا زبیر بن العوام رضی اللہ عنہم اجمعین اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں؟ فرمایا: بلا لو، تھوڑی دیر بعد وہ غلام پھر آیا اور کہنے لگا کہ سیدنا عباس اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں؟ فرمایا: انہیں بھی بلا لو۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے اندر داخل ہوتے ہی فرمایا: امیر المومنین! میرے اور اس کے درمیان فیصلہ کر دیجئے، اس وقت ان کا جھگڑا بنو نضیر سے حاصل ہونے والے مال فئی کے بارے میں تھا، لوگوں نے بھی کہا کہ امیر المومنین! ان کے درمیان فیصلہ کر دیجئے اور ہر ایک کو دوسرے سے راحت عطاء فرمائیے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں تمہیں اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے زمین آسمان قائم ہیں، کیا آپ لوگ جانتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”ہمارے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی، ہم جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ سب صدقہ ہوتا ہے“؟ لوگوں نے اثبات میں جواب دیا، پھر انہوں نے سیدنا عباس و سیدنا علی رضی اللہ عنہما سے بھی یہی سوال پوچھا، اور انہوں نے بھی تائید کی، اس کے بعد انہوں نے فرمایا کہ میں تمہیں اس کی حقیقت سے آگاہ کرتا ہوں۔ اللہ نے یہ مال فئی خصوصیت کے ساتھ صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا تھا، کسی کو اس میں سے کچھ نہیں دیا تھا اور فرمایا تھا: «﴿وَمَا أَفَاءَ اللّٰهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ﴾ [الحشر: 6] »”اور جو (مال) خدا نے اپنے پیغمبر کو ان لوگوں سے (بغیر لڑائی بھڑائی کے) دلوایا ہے اس میں تمہارا کچھ حق نہیں کیونکہ اس کے لئے نہ تم نے گھوڑے دوڑائے نہ اونٹ۔“ اس لئے یہ مال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے خاص تھا، لیکن واللہ! انہوں نے تمہیں چھوڑ کر اسے اپنے لئے محفوظ نہیں کیا اور نہ ہی اس مال کو تم پر ترجیح دی، انہوں نے یہ مال بھی تمہارے درمیان تقسیم کر دیا یہاں تک کہ یہ تھوڑا سا بچ گیا جس میں سے وہ اپنے اہل خانہ کو سال بھر کا نفقہ دیا کرتے تھے، اور اس مال میں سے بھی اگر کچھ بچ جاتا تو اسے اللہ کے راستہ میں تقسیم کر دیتے، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ان کے مال کا ذمہ دار اور سرپرست میں ہوں، چنانچہ انہوں نے اس میں وہی طریقہ اختیار کیا جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم چلتے رہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثنا ابن اخي ابن شهاب ، عن عمه محمد بن مسلم ، قال: اخبرني مالك بن اوس بن الحدثان النصري ، فذكر الحديث، قال: فبينا انا جالس عنده اتاه حاجبه يرفا، فقال لعمر: هل لك في عثمان , وعبد الرحمن , وسعد , والزبير يستاذنون؟ قال: نعم، ائذن لهم، قال: فدخلوا فسلموا وجلسوا , قال: ثم لبث يرفا قليلا، فقال لعمر هل لك في علي , وعباس؟ فقال: نعم، فاذن لهما، فلما دخلا عليه جلسا، فقال عباس: يا امير المؤمنين، اقض بيني وبين علي رضي الله عنه؟ فقال الرهط عثمان واصحابه: اقض بينهما , وارح احدهما من الآخر، فقال عمر رضي الله عنه: اتئدوا، فانشدكم بالله الذي بإذنه تقوم السماء والارض، هل تعلمون ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال:" لا نورث ما تركنا صدقة"، يريد بذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم نفسه؟ قال الرهط: قد قال ذلك، فاقبل عمر على علي , وعباس رضي الله عنهما، فقال: انشدكما بالله، هل تعلمان ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال ذلك؟ قالا: قد قال ذلك، فقال عمر: فإني احدثكم عن هذا الامر، إن الله عز وجل كان خص رسوله في هذا الفيء بشيء لم يعطه احدا غيره، فقال الله تعالى وما افاء الله على رسوله منهم فما اوجفتم سورة الحشر آية 6، فكانت هذه الآية خاصة لرسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم والله ما احتازها، ولا استاثر بها عليكم، لقد اعطاكموها وبثها فيكم، حتى بقي منها هذا المال، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم ينفق على اهله نفقة سنتهم من هذا المال، ثم ياخذ ما بقي منه، فيجعله مجعل مال الله، فعمل بذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم حياته، انشدكم الله، هل تعلمون ذلك؟ قالوا: نعم، قال لعلي , وعباس، فانشدكما بالله، هل تعلمان ذلك؟ قالا: نعم، ثم توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال ابو بكر: انا ولي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقبضها ابو بكر رضي الله تعالى عنه، فعمل فيها بما عمل به فيها رسول الله صلى الله عليه وسلم، وانتم حينئذ، واقبل على علي , وعباس، تزعمان ان ابا بكر فيها كذا، والله يعلم إنه فيها لصادق بار راشد تابع للحق.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عَمِّهِ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَالِكُ بْنُ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ النَّصْرِيُّ ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، قَالَ: فَبَيْنَا أَنَا جَالِسٌ عِنْدَهُ أَتَاهُ حَاجِبُهُ يَرْفَأُ، فَقَالَ لِعُمَرَ: هَلْ لَكَ فِي عُثْمَانَ , وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ , وَسَعْدٍ , وَالزُّبَيْرِ يَسْتَأْذِنُونَ؟ قَالَ: نَعَمْ، ائْذَنْ لَهُمْ، قَالَ: فَدَخَلُوا فَسَلَّمُوا وَجَلَسُوا , قَالَ: ثُمَّ لَبِثَ يَرْفَأُ قَلِيلًا، فَقَالَ لِعُمَرَ هَلْ لَكَ فِي عَلِيٍّ , وَعَبَّاسٍ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، فَأَذِنَ لَهُمَا، فَلَمَّا دَخَلَا عَلَيْهِ جَلَسَا، فَقَالَ عَبَّاسٌ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ؟ فَقَالَ الرَّهْطُ عُثْمَانُ وَأَصْحَابُهُ: اقْضِ بَيْنَهُمَا , وَأَرِحْ أَحَدَهُمَا مِنَ الْآخَرِ، فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: اتَّئِدُوا، فَأَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ، هَلْ تَعْلَمُونَ أَن َّرَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ"، يُرِيدُ بِذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَفْسَهُ؟ قَالَ الرَّهْطُ: قَدْ قَالَ ذَلِكَ، فَأَقْبَلَ عُمَرُ عَلَى عَلِيٍّ , وَعَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فَقَالَ: أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ، هَلْ تَعْلَمَانِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ ذَلِكَ؟ قَالَا: قَدْ قَالَ ذَلِكَ، فَقَالَ عُمَرُ: فَإِنِّي أُحَدِّثُكُمْ عَنْ هَذَا الْأَمْرِ، إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ كَانَ خَصَّ رَسُولَهُ فِي هَذَا الْفَيْءِ بِشَيْءٍ لَمْ يُعْطِهِ أَحَدًا غَيْرَهُ، فَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ سورة الحشر آية 6، فَكَانَتْ هَذِهِ الْآيَةُ خَاصَّةً لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ وَاللَّهِ مَا احْتَازَهَا، وَلَا اسْتَأْثَرَ بِهَا عَلَيْكُمْ، لَقَدْ أَعْطَاكُمُوهَا وَبَثَّهَا فِيكُمْ، حَتَّى بَقِيَ مِنْهَا هَذَا الْمَالُ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنْفِقُ عَلَى أَهْلِهِ نَفَقَةَ سَنَتِهِمْ مِنْ هَذَا الْمَالِ، ثُمَّ يَأْخُذُ مَا بَقِيَ مِنْهُ، فَيَجْعَلُهُ مَجْعَلَ مَالِ اللَّهِ، فَعَمِلَ بِذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيَاتَهُ، أَنْشُدُكُمْ اللَّهَ، هَلْ تَعْلَمُونَ ذَلِكَ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ لِعَلِيٍّ , وَعَبَّاسٍ، فَأَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ، هَلْ تَعْلَمَانِ ذَلِكَ؟ قَالَا: نَعَمْ، ثُمَّ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَبَضَهَا أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ، فَعَمِلَ فِيهَا بِمَا عَمِلَ بِهِ فِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنْتُمْ حِينَئِذٍ، وَأَقْبَلَ عَلَى عَلِيٍّ , وَعَبَّاسٍ، تَزْعُمَانِ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ فِيهَا كَذَا، وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُ فِيهَا لَصَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ.
مالک بن اوس بن حدثان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مجھے پیغام بھیج کر بلوایا، ابھی ہم بیٹھے ہوئے تھے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا غلام - جس کا نام یرفا تھا - اندر آیا اور کہنے لگا کہ سیدنا عثمان، سیدنا عبدالرحمن، سیدنا سعد اور سیدنا زبیر بن العوام رضی اللہ عنہم اجمعین اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں؟ فرمایا: بلا لو، تھوڑی دیر بعد وہ غلام پھر آیا اور کہنے لگا کہ سیدنا عباس اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں؟ فرمایا: انہیں بھی بلا لو۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے اندر داخل ہوتے ہی فرمایا: امیر المومنین! میرے اور اس کے درمیان فیصلہ کر دیجئے، اس وقت ان کا جھگڑا بنو نضیر سے حاصل ہونے والے مال فئی کے بارے میں تھا، لوگوں نے بھی کہا کہ امیر المومنین! ان کے درمیان فیصلہ کر دیجئے اور ہر ایک کو دوسرے سے راحت عطاء فرمائیے کیونکہ اب ان کا جھگڑا بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں تمہیں اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے زمین آسمان قائم ہیں، کیا آپ لوگ جانتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”ہمارے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی، ہم جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ سب صدقہ ہوتا ہے“؟ لوگوں نے اثبات میں جواب دیا، پھر انہوں نے سیدنا عباس و سیدنا علی رضی اللہ عنہما سے بھی یہی سوال پوچھا اور انہوں نے بھی تائید کی، اس کے بعد انہوں نے فرمایا کہ میں تمہیں اس کی حقیقت سے آگاہ کرتا ہوں۔ اللہ نے یہ مال فئی خصوصیت کے ساتھ صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا تھا، کسی کو اس میں سے کچھ نہیں دیا تھا اور فرمایا تھا: «﴿وَمَا أَفَاءَ اللّٰهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ﴾ [الحشر: 6] »”اور جو (مال) خدا نے اپنے پیغمبر کو ان لوگوں سے (بغیر لڑائی بھڑائی کے) دلوایا ہے اس میں تمہارا کچھ حق نہیں کیونکہ اس کے لئے نہ تم نے گھوڑے دوڑائے نہ اونٹ۔“ اس لئے یہ مال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے خاص تھا، لیکن واللہ! انہوں نے تمہیں چھوڑ کر اسے اپنے لئے محفوظ نہیں کیا اور نہ ہی اس مال کو تم پر ترجیح دی، انہوں نے یہ مال بھی تمہارے درمیان تقسیم کر دیا یہاں تک کہ یہ تھوڑا سا بچ گیا جس میں سے وہ اپنے اہل خانہ کو سال بھر کا نفقہ دیا کرتے تھے، اور اس میں سے بھی اگر کچھ بچ جاتا تو اسے اللہ کے راستہ میں تقسیم کر دیتے، اور وہ اپنی زندگی میں اسی طریقے پر عمل کرتے رہے، میں تم سے اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں، کیا تم بھی یہ بات جانتے ہو؟ لوگوں نے کہا: جی ہاں! پھر انہوں نے سیدنا عباس اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما سے بھی یہی سوال پوچھا اور انہوں نے بھی یہی جواب دیا۔ پھر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ان کے مال کا ذمہ دار اور سرپرست میں ہوں، چنانچہ انہوں نے اس میں وہی طریقہ اختیار کیا جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم چلتے رہے، اور اب تم (انہوں نے سیدنا عباس اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا) یہ سمجھتے ہو کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ایسے تھے، حالانکہ اللہ جانتا ہے کہ وہ اس معاملے میں سچے، نیکوکار، راہ راست پر اور حق کی تابعداری کرنے والے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا حسين بن علي ، عن زائدة ، عن يزيد بن ابي زياد ، عن عبد الله بن الحارث ، عن العباس ، قال: اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، علمني شيئا ادعو به؟ فقال:" سل الله العفو والعافية"، قال: ثم اتيته مرة اخرى، فقلت: يا رسول الله، علمني شيئا ادعو به، قال: فقال:" يا عباس يا عم رسول الله صلى الله عليه وسلم، سل الله العافية في الدنيا والآخرة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ ، عَنْ زَائِدَةَ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنِ الْعَبَّاسِ ، قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، عَلِّمْنِي شَيْئًا أَدْعُو بِهِ؟ فَقَالَ:" سَلْ اللَّهَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ"، قَالَ: ثُمَّ أَتَيْتُهُ مَرَّةً أُخْرَى، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، عَلِّمْنِي شَيْئًا أَدْعُو بِهِ، قَالَ: فَقَالَ:" يَا عَبَّاسُ يَا عَمَّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، سَلْ اللَّهَ الْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ".
ایک مرتبہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگے: یا رسول اللہ! مجھے کوئی دعا سکھا دیجئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آپ اپنے رب سے دنیا و آخرت میں درگزر اور عافیت کی دعا مانگتے رہا کریں۔“ پھر سیدنا عباس رضی اللہ عنہ ایک سال بعد دوبارہ آئے، تب بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہی دعا تلقین فرمائی۔
حكم دارالسلام: . حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف يزيد بن أبى زياد.
(حديث مرفوع) حدثنا ابو سعيد ، حدثنا قيس بن الربيع ، حدثني عبد الله بن ابي السفر ، عن ابن شرحبيل ، عن ابن عباس ، عن العباس ، قال: دخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم وعنده نساؤه، فاستترن مني إلا ميمونة، فقال:" لا يبقى في البيت احد شهد اللد إلا لد، إلا ان يميني لم تصب العباس"، ثم قال:" مروا ابا بكر ان يصلي بالناس"، فقالت عائشة , لحفصة قولي له: إن ابا بكر رجل إذا قام مقامك بكى، قال:" مروا ابا بكر ليصل بالناس" , فقام فصلى، فوجد النبي صلى الله عليه وسلم خفة فجاء، فنكص ابو بكر رضي الله عنه، فاراد ان يتاخر، فجلس إلى جنبه، ثم اقترا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي السَّفَرِ ، عَنِ ابْنِ شُرَحْبِيلَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ الْعَبَّاسِ ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ نِسَاؤُهُ، فَاسْتَتَرْنَ مِنِّي إِلَّا مَيْمُونَةَ، فَقَالَ:" لَا يَبْقَى فِي الْبَيْتِ أَحَدٌ شَهِدَ اللَّدَّ إِلَّا لُدَّ، إِلَّا أَنَّ يَمِينِي لَمْ تُصِبْ الْعَبَّاسَ"، ثُمَّ قَالَ:" مُرُوا أَبَا بَكْرٍ أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ"، فَقَالَتْ عَائِشَةُ , لِحَفْصَةَ قُولِي لَهُ: إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ إِذَا قَامَ مَقَامَكَ بَكَى، قَالَ:" مُرُوا أَبَا بَكْرٍ لِيُصَلِّ بِالنَّاسِ" , فَقَامَ فَصَلَّى، فَوَجَدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خِفَّةً فَجَاءَ، فَنَكَصَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَأَرَادَ أَنْ يَتَأَخَّرَ، فَجَلَسَ إِلَى جَنْبِهِ، ثُمَّ اقْتَرَأَ.
سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، وہاں تمام ازواج مطہرات موجود تھیں، ان سب نے مجھ سے پردہ کیا سوائے سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے (کیونکہ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا ان کی سالی تھیں)، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے منہ میں زبردستی دوا ڈالنے کے موقع پر جو شخص بھی موجود تھا اس کے منہ میں بھی زبردستی دوا ڈالی جائے لیکن میری اس قسم کا تعلق عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ نہیں ہے۔“ پھر فرمایا کہ ”ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں۔“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کرو کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ جب آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو وہ رونے لگیں گے (اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکیں گے)، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ ”ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔“ چنانچہ انہوں نے کھڑے ہو کر نماز پڑھائی، ادھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اپنے مرض میں کچھ تخفیف محسوس ہوئی، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی نماز کے لئے آ گئے، اس پر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے الٹے پاؤں پیچھے ہونا چاہا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پہلو میں آ کر بیٹھ گئے اور قرأت فرمائی۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، قيس بن الربيع مختلف فيه، وحديثه حسن فى الشواهد، وهذا منها.
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن آدم ، حدثنا قيس ، حدثنا عبد الله بن ابي السفر ، عن ارقم بن شرحبيل ، عن ابن عباس ، عن العباس بن عبد المطلب ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال في مرضه:" مروا ابا بكر يصلي بالناس"، فخرج ابو بكر فكبر، ووجد النبي صلى الله عليه وسلم راحة، فخرج يهادى بين رجلين، فلما رآه ابو بكر تاخر، فاشار إليه النبي صلى الله عليه وسلم مكانك، ثم جلس رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى جنب ابي بكر، فاقترا من المكان الذي بلغ ابو بكر رضي الله تعالى عنه , من السورة.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا قَيْسٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي السَّفَرِ ، عَنْ أَرْقَمَ بْنِ شُرَحْبِيلَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ فِي مَرَضِهِ:" مُرُوا أَبَا بَكْرٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ"، فَخَرَجَ أَبُو بَكْرٍ فَكَبَّرَ، وَوَجَدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَاحَةً، فَخَرَجَ يُهَادَى بَيْنَ رَجُلَيْنِ، فَلَمَّا رَآهُ أَبُو بَكْرٍ تَأَخَّرَ، فَأَشَارَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَانَكَ، ثُمَّ جَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى جَنْبِ أَبِي بَكْرٍ، فَاقْتَرَأَ مِنَ الْمَكَانِ الَّذِي بَلَغَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ , مِنَ السُّورَةِ.
سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اپنے مرض الوفات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں۔“ چنانچہ انہوں نے کھڑے ہو کر نماز پڑھائی، ادھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اپنے مرض میں کچھ تخفیف محسوس ہوئی، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی دو آدمیوں کے سہارے نماز کے لئے آ گئے، اس پر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے الٹے پاؤں پیچھے ہونا چاہا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارہ سے فرمایا کہ ”اپنی جگہ پر ہی رہو۔“ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پہلو میں آ کر بیٹھ گئے اور اسی جگہ سے قرأت فرمائی جہاں تک سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ پہنچے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبيد بن ابي قرة ، حدثنا ليث بن سعد ، عن ابي قبيل ، عن ابي ميسرة , عن العباس , قال: كنت عند النبي صلى الله عليه وسلم ذات ليلة، فقال:" انظر هل ترى في السماء من نجم؟" , قال: قلت: نعم، قال:" ما ترى؟" , قال: قلت: ارى الثريا، قال:" اما إنه يلي هذه الامة بعددها من صلبك، اثنين في فتنة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ أَبِي قُرَّةَ ، حَدَّثَنَا لَيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِي قَبِيلٍ ، عَنْ أَبِي مَيْسَرَةَ , عَنِ الْعَبَّاسِ , قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ، فَقَالَ:" انْظُرْ هَلْ تَرَى فِي السَّمَاءِ مِنْ نَجْمٍ؟" , قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ:" مَا تَرَى؟" , قَالَ: قُلْتُ: أَرَى الثُّرَيَّا، قَالَ:" أَمَا إِنَّهُ يَلِي هَذِهِ الْأُمَّةَ بِعَدَدِهَا مِنْ صُلْبِكَ، اثْنَيْنِ فِي فِتْنَةٍ".
سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رات کے وقت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دیکھئے، آسمان میں آپ کو کوئی ستارہ نظر آتا ہے؟“ میں نے کہا: جی ہاں! فرمایا: ”کون سا ستارہ نظر آتا ہے؟“ میں نے عرض کیا: ثریا، فرمایا: ”تمہاری نسل میں سے اس ثریا ستارے کی تعداد کے برابر لوگ اس امت کے حکمران ہوں گے جن میں سے دو آزمائش کا شکار ہوں گے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي , عن ابن إسحاق ، حدثني يحيى بن ابي الاشعث ، عن إسماعيل بن إياس بن عفيف الكندي ، عن ابيه ، عن جده ، قال:" كنت امرا تاجرا، فقدمت الحج، فاتيت العباس بن عبد المطلب لابتاع منه بعض التجارة، وكان امرا تاجرا، فوالله إنني لعنده بمنى إذ خرج رجل من خباء قريب منه، فنظر إلى الشمس، فلما رآها مالت يعني قام يصلي، قال: ثم خرجت امراة من ذلك الخباء الذي خرج منه ذلك الرجل، فقامت خلفه تصلي، ثم خرج غلام حين راهق الحلم من ذلك الخباء، فقام معه يصلي، قال: فقلت للعباس : من هذا يا عباس؟ قال: هذا محمد بن عبد الله بن عبد المطلب ابن اخي، قال: فقلت: من هذه المراة؟ قال: هذه امراته خديجة ابنة خويلد، قال: قلت: من هذا الفتى؟ قال: هذا علي بن ابي طالب ابن عمه، قال: فقلت: فما هذا الذي يصنع؟ قال: يصلي، وهو يزعم انه نبي، ولم يتبعه على امره إلا امراته وابن عمه هذا الفتى، وهو يزعم انه سيفتح عليه كنوز كسرى , وقيصر،: قال فكان عفيف وهو ابن عم الاشعث بن قيس، يقول: واسلم بعد ذلك فحسن إسلامه، لو كان الله رزقني الإسلام يومئذ، فاكون ثالثا مع علي بن ابي طالب رضي الله عنه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي , عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي الْأَشْعَثِ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ إِيَاسِ بْنِ عَفِيفٍ الْكِنْدِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ:" كُنْتُ امْرَأً تَاجِرًا، فَقَدِمْتُ الْحَجَّ، فَأَتَيْتُ الْعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لِأَبْتَاعَ مِنْهُ بَعْضَ التِّجَارَةِ، وَكَانَ امْرَأً تَاجِرًا، فَوَاللَّهِ إِنَّنِي لَعِنْدَهُ بِمِنًى إِذْ خَرَجَ رَجُلٌ مِنْ خِبَاءٍ قَرِيبٍ مِنْهُ، فَنَظَرَ إِلَى الشَّمْسِ، فَلَمَّا رَآهَا مَالَتْ يَعْنِي قَامَ يُصَلِّي، قَالَ: ثُمَّ خَرَجَتْ امْرَأَةٌ مِنْ ذَلِكَ الْخِبَاءِ الَّذِي خَرَجَ مِنْهُ ذَلِكَ الرَّجُلُ، فَقَامَتْ خَلْفَهُ تُصَلِّي، ثُمَّ خَرَجَ غُلَامٌ حِينَ رَاهَقَ الْحُلُمَ مِنْ ذَلِكَ الْخِبَاءِ، فَقَامَ مَعَهُ يُصَلِّي، قَالَ: فَقُلْتُ لِلْعَبَّاسِ : مَنْ هَذَا يَا عَبَّاسُ؟ قَالَ: هَذَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ابْنُ أَخِي، قَالَ: فَقُلْتُ: مَنْ هَذِهِ الْمَرْأَةُ؟ قَالَ: هَذِهِ امْرَأَتُهُ خَدِيجَةُ ابْنَةُ خُوَيْلِدٍ، قَالَ: قُلْتُ: مَنْ هَذَا الْفَتَى؟ قَالَ: هَذَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ ابْنُ عَمِّهِ، قَالَ: فَقُلْتُ: فَمَا هَذَا الَّذِي يَصْنَعُ؟ قَالَ: يُصَلِّي، وَهُوَ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ، وَلَمْ يَتْبَعْهُ عَلَى أَمْرِهِ إِلَّا امْرَأَتُهُ وَابْنُ عَمِّهِ هَذَا الْفَتَى، وَهُوَ يَزْعُمُ أَنَّهُ سَيُفْتَحُ عَلَيْهِ كُنُوزُ كِسْرَى , وَقَيْصَرَ،: قَالَ فَكَانَ عَفِيفٌ وَهُوَ ابْنُ عَمِّ الْأَشْعَثِ بْنِ قَيْسٍ، يَقُولُ: وَأَسْلَمَ بَعْدَ ذَلِكَ فَحَسُنَ إِسْلَامُهُ، لَوْ كَانَ اللَّهُ رَزَقَنِي الْإِسْلَامَ يَوْمَئِذٍ، فَأَكُونُ ثَالِثًا مَعَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.
عفیف کندی کہتے ہیں کہ میں ایک تاجر آدمی تھا، ایک مرتبہ میں حج کے لئے آیا، میں سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے پاس - جو خود بھی تاجر تھے - کچھ مال تجارت خریدنے کے لئے آیا، میں ان کے پاس اس وقت منیٰ میں تھا کہ اچانک قریب کے خیمے سے ایک آدمی نکلا، اس نے سورج کو جب ڈھلتے ہوئے دیکھا تو نماز پڑھنے کے لئے کھڑا ہو گیا، پھر ایک عورت اسی خیمے سے نکلی جس سے وہ مرد نکلا تھا، اس عورت نے اس مرد کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھنا شروع کر دی، پھر ایک لڑکا - جو قریب البلوغ تھا - وہ بھی اسی خیمے سے نکلا اور اس مرد کے ساتھ کھڑا ہو کر نماز پڑھنے لگا۔ میں نے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ عباس! یہ کون ہے؟ انہوں نے کہا: یہ میرے بھتیجے محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ہیں، میں نے پوچھا: یہ عورت کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ یہ ان کی بیوی خدیجہ بنت خویلد ہیں، میں نے پوچھا: یہ نوجوان کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ یہ ان کے چچا کے بیٹے علی بن ابی طالب ہیں، میں نے پوچھا یہ کیا کر رہے ہیں؟ انہوں نے کہا: یہ نماز پڑھ رہے ہیں، ان کا خیال یہ ہے کہ یہ اللہ کے نبی ہیں لیکن ابھی تک ان کی پیروی صرف ان کی بیوی اور اس نوجوان نے ہی شروع کی ہے، اور ان کا خیال یہ بھی ہے کہ عنقریب قیصر و کسری کے خزانوں کو ان کے لئے کھول دیا جائے گا۔ عفیف - جنہوں نے بعد میں اسلام قبول کر لیا تھا - کہتے ہیں کہ اگر اللہ مجھے اسی دن اسلام قبول کرنے کی توفیق دے دیتا تو میں تیسرا مسلمان ہوتا۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو نعيم ، عن سفيان ، عن يزيد بن ابي زياد ، عن عبد الله بن الحارث بن نوفل ، عن المطلب بن ابي وداعة , قال: قال العباس : بلغه صلى الله عليه وسلم بعض ما يقول الناس، قال: فصعد المنبر، فقال:" من انا"، قالوا: انت رسول الله، فقال:" انا محمد بن عبد الله بن عبد المطلب، إن الله خلق الخلق فجعلني في خير خلقه، وجعلهم فرقتين، فجعلني في خير فرقة، وخلق القبائل، فجعلني في خير قبيلة، وجعلهم بيوتا، فجعلني في خيرهم بيتا، فانا خيركم بيتا، وخيركم نفسا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ ، عَنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ أَبِي وَدَاعَةَ , قَالَ: قَالَ الْعَبَّاسُ : بَلَغَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْضُ مَا يَقُولُ النَّاسُ، قَالَ: فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ، فَقَالَ:" مَنْ أَنَا"، قَالُوا: أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ، فَقَالَ:" أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ الْخَلْقَ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِ خَلْقِهِ، وَجَعَلَهُمْ فِرْقَتَيْنِ، فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِ فِرْقَةٍ، وَخَلَقَ الْقَبَائِلَ، فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِ قَبِيلَةٍ، وَجَعَلَهُمْ بُيُوتًا، فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ بَيْتًا، فَأَنَا خَيْرُكُمْ بَيْتًا، وَخَيْرُكُمْ نَفْسًا".
سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں کی طرف سے کچھ باتیں معلوم ہوئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر رونق افروز ہوئے اور لوگوں سے مخاطب ہو کر پوچھا: ”میں کون ہوں؟“ لوگوں نے کہا کہ آپ اللہ کے پیغمبر ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ہوں، اللہ نے مخلوقات کو پیدا کیا اور مجھے ان میں سب سے بہتر مخلوق میں رکھا، پھر اللہ نے انہیں دو گروہوں میں تقسیم کر دیا اور مجھے بہترین گروہ میں رکھا، پھر اللہ نے قبائل کو پیدا کیا اور مجھے بہترین قبیلہ میں رکھا، پھر اللہ نے رہائشیں مقرر کیں اور مجھے سب سے بہترین رہائش میں رکھا، اس لئے میں رہائش کے اعتبار سے بھی تم سب سے بہتر ہوں اور اپنی ذات کے اعتبار سے بھی تم سب سے بہتر ہوں۔“
حكم دارالسلام: حسن لغيره، يزيد بن أبى زياد إن كان فيه ضعف لكن حديثه حسن فى المتابعات.
ایک مرتبہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کے چچا ابوطالب آپ کا بہت دفاع کیا کرتے تھے، آپ کی وجہ سے انہیں کیا فائدہ ہوا؟ فرمایا: ”وہ جہنم کے اوپر والے حصے میں ہیں، اگر میں نہ ہوتا تو وہ جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوتے۔“
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا اسباط بن محمد ، حدثنا هشام بن سعد ، عن عبيد الله بن عباس بن عبد المطلب , اخي عبد الله، قال:" كان للعباس ميزاب على طريق عمر بن الخطاب، فلبس عمر ثيابه يوم الجمعة، وقد كان ذبح للعباس فرخان، فلما وافى الميزاب صب ماء بدم الفرخين، فاصاب عمر، وفيه دم الفرخين، فامر عمر بقلعه ثم رجع عمر فطرح ثيابه، ولبس ثيابا غير ثيابه، ثم جاء فصلى بالناس , فاتاه العباس , فقال: والله إنه للموضع الذي وضعه النبي صلى الله عليه وسلم، فقال عمر , للعباس: وانا اعزم عليك لما صعدت على ظهري، حتى تضعه في الموضع الذي وضعه رسول الله صلى الله عليه وسلم، ففعل ذلك العباس رضي الله تعالى عنه".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ , أَخِي عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:" كَانَ لِلْعَبَّاسِ مِيزَابٌ عَلَى طَرِيقِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَلَبِسَ عُمَرُ ثِيَابَهُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَقَدْ كَانَ ذُبِحَ لِلْعَبَّاسِ فَرْخَانِ، فَلَمَّا وَافَى الْمِيزَابَ صُبَّ مَاءٌ بِدَمِ الْفَرْخَيْنِ، فَأَصَابَ عُمَرَ، وَفِيهِ دَمُ الْفَرْخَيْنِ، فَأَمَرَ عُمَرُ بِقَلْعِهِ ثُمَّ رَجَعَ عُمَرُ فَطَرَحَ ثِيَابَهُ، وَلَبِسَ ثِيَابًا غَيْرَ ثِيَابِهِ، ثُمَّ جَاءَ فَصَلَّى بِالنَّاسِ , فَأَتَاهُ الْعَبَّاسُ , فَقَالَ: وَاللَّهِ إِنَّهُ لَلْمَوْضِعُ الَّذِي وَضَعَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ عُمَرُ , لِلْعَبَّاسِ: وَأَنَا أَعْزِمُ عَلَيْكَ لَمَّا صَعِدْتَ عَلَى ظَهْرِي، حَتَّى تَضَعَهُ فِي الْمَوْضِعِ الَّذِي وَضَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَفَعَلَ ذَلِكَ الْعَبَّاسُ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ".
عبیداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کا ایک پرنالہ تھا جو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے راستے میں آتا تھا، ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جمعہ کے دن نئے کپڑے پہنے، اسی دن سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے یہاں دو چوزے ذبح ہوئے تھے، جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس پرنالے کے قریب پہنچے تو اس میں چوزوں کا خون ملا پانی بہنے لگا، وہ پانی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پر گرا اور اس میں چوزوں کا خون بھی تھا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس پرنالے کو وہاں سے ہٹا دینے کا حکم دیا، اور گھر واپس جا کر وہ کپڑے اتار کر دوسرے کپڑے پہنے اور آ کر لوگوں کو نماز پڑھائی۔ نماز کے بعد ان کے پاس سیدنا عباس رضی اللہ عنہ آئے اور کہنے لگے کہ واللہ! اس جگہ اس پرنالے کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لگایا تھا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا: میں آپ کو قسم دیتا ہوں کہ آپ میری کمر پر کھڑے ہو کر اسے وہیں لگا دیجئے جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لگایا تھا، چنانچہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے وہ پرنالہ اسی طرح دوبارہ لگا دیا۔
حكم دارالسلام: حسن، وهذا إسناد منقطع، هشام بن سعد لم يدرك عبيدالله بن عباس.