(حديث مرفوع) حدثنا ابو سعيد ، حدثنا قيس بن الربيع ، حدثني عبد الله بن ابي السفر ، عن ابن شرحبيل ، عن ابن عباس ، عن العباس ، قال: دخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم وعنده نساؤه، فاستترن مني إلا ميمونة، فقال:" لا يبقى في البيت احد شهد اللد إلا لد، إلا ان يميني لم تصب العباس"، ثم قال:" مروا ابا بكر ان يصلي بالناس"، فقالت عائشة , لحفصة قولي له: إن ابا بكر رجل إذا قام مقامك بكى، قال:" مروا ابا بكر ليصل بالناس" , فقام فصلى، فوجد النبي صلى الله عليه وسلم خفة فجاء، فنكص ابو بكر رضي الله عنه، فاراد ان يتاخر، فجلس إلى جنبه، ثم اقترا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي السَّفَرِ ، عَنِ ابْنِ شُرَحْبِيلَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ الْعَبَّاسِ ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ نِسَاؤُهُ، فَاسْتَتَرْنَ مِنِّي إِلَّا مَيْمُونَةَ، فَقَالَ:" لَا يَبْقَى فِي الْبَيْتِ أَحَدٌ شَهِدَ اللَّدَّ إِلَّا لُدَّ، إِلَّا أَنَّ يَمِينِي لَمْ تُصِبْ الْعَبَّاسَ"، ثُمَّ قَالَ:" مُرُوا أَبَا بَكْرٍ أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ"، فَقَالَتْ عَائِشَةُ , لِحَفْصَةَ قُولِي لَهُ: إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ إِذَا قَامَ مَقَامَكَ بَكَى، قَالَ:" مُرُوا أَبَا بَكْرٍ لِيُصَلِّ بِالنَّاسِ" , فَقَامَ فَصَلَّى، فَوَجَدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خِفَّةً فَجَاءَ، فَنَكَصَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَأَرَادَ أَنْ يَتَأَخَّرَ، فَجَلَسَ إِلَى جَنْبِهِ، ثُمَّ اقْتَرَأَ.
سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، وہاں تمام ازواج مطہرات موجود تھیں، ان سب نے مجھ سے پردہ کیا سوائے سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے (کیونکہ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا ان کی سالی تھیں)، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے منہ میں زبردستی دوا ڈالنے کے موقع پر جو شخص بھی موجود تھا اس کے منہ میں بھی زبردستی دوا ڈالی جائے لیکن میری اس قسم کا تعلق عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ نہیں ہے۔“ پھر فرمایا کہ ”ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں۔“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کرو کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ جب آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو وہ رونے لگیں گے (اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکیں گے)، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ ”ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔“ چنانچہ انہوں نے کھڑے ہو کر نماز پڑھائی، ادھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اپنے مرض میں کچھ تخفیف محسوس ہوئی، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی نماز کے لئے آ گئے، اس پر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے الٹے پاؤں پیچھے ہونا چاہا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پہلو میں آ کر بیٹھ گئے اور قرأت فرمائی۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، قيس بن الربيع مختلف فيه، وحديثه حسن فى الشواهد، وهذا منها.