وَمِن مسنَدِ بَنِی هَاشِم 24. مسنَد الفَضلِ بنِ عَبَّاس رَضِیَ اللَّه تَعَالَى عَنه
سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ مزدلفہ سے واپسی پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر پیچھے سوار تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمرہ عقبہ کی رمی تک تلبیہ کہتے رہے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 1543، م: 1281.
سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرہ عقبہ کی رمی تک تلبیہ کہا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 1543، م: 1281.
سیدنا فضل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرہ عقبہ کی رمی تک مسلسل تلبیہ کہا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 1543، م: 1281.
سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ عرفہ کی رات گذارنے کے بعد جب صبح کے وقت ہم نے وادی مزدلفہ کو چھوڑا ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا: ”اطمینان اور سکون اختیار کرو۔“ اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری کو تیز چلنے سے روک رہے تھے، یہاں تک کہ وادی محسر سے اتر کر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ میں داخل ہوئے تو فرمایا: ”ٹھیکری کی کنکریاں لے لو تاکہ رمی جمرات کی جا سکے،“ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کرنے لگے جس طرح انسان کنکری پھینکتے وقت کرتا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 1282.
سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ کے اندر کھڑے ہوئے اور تسبیح و تکبیر کہی، اللہ سے دعا کی اور استغفار کیا، لیکن رکوع سجدہ نہیں کیا۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح.
سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما - جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ردیف تھے - سے مروی ہے کہ عرفہ کی رات گذارنے کے بعد جب صبح کے وقت ہم نے وادی مزدلفہ کو چھوڑا ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا: ”اطمینان اور سکون اختیار کرو۔“ اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری کو تیز چلنے سے روک رہے تھے، یہاں تک کہ وادی محسر سے اتر کر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ میں داخل ہوئے تو فرمایا: ”ٹھیکری کی کنکریاں لے لو تاکہ رمی جمرات کی جا سکے،“ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کرنے لگے جس طرح انسان کنکری پھینکتے وقت کرتا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 1282.
سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے کسی دیہات میں سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے ملاقات فرمائی، اس وقت ہمارے پاس ایک مؤنث کتا اور ایک مؤنث گدھا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز پڑھی تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہی رہے لیکن نہ تو انہیں ہٹایا گیا اور نہ ہی انہیں ڈانٹ کر بھگانے کی کوشش کی گئی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، عباس بن عبيد الله مجهول ولم يدرك عمه الفضل.
سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ مزدلفہ سے واپسی پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر پیچھے سوار تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمرہ عقبہ کی رمی تک مسلسل تلبیہ کہتے رہے۔
حكم دارالسلام: إسناده قوي، خ: 1543، م: 1281.
سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”نماز کی دو دو رکعتیں ہوتی ہیں، ہر دو رکعت پر تشہد پڑھو، خشوع و خضوع، عاجزی اور مسکینی ظاہر کرو، اپنے ہاتھوں کو پھیلاؤ، اپنے رب کے سامنے بلند کرو اور ان کے اندرونی حصے کو اپنے چہرے کے سامنے کر کے یا رب، یا رب کہہ کر دعا کرو۔“ جو شخص ایسا نہ کرے اس کے متعلق بڑی سخت بات فرمائی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، عبدالله بن نافع مجهول.
سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم عرفات سے روانہ ہوئے تو میں ان کے ساتھ تھا، جب ہم لوگ گھاٹی میں پہنچے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اتر کر وضو کیا، ہم پھر سوار ہو گئے یہاں تک کہ مزدلفہ آ پہنچے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ مجھے میرے بھائی سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما نے بتایا کہ جس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ میں داخل ہوئے، وہ ان کے ساتھ تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں نماز نہیں پڑھی، البتہ وہاں داخل ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو ستونوں کے درمیان سجدہ ریز ہو گئے اور پھر بیٹھ کر دعا کرنے لگے۔
حكم دارالسلام: إسناده حسن.
سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ مزدلفہ سے واپسی پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر پیچھے سوار تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم پرسکون انداز میں واپس ہوئے اور جمرہ عقبہ کی رمی تک تلبیہ کہتے رہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 1543، م: 1281. وهذا إسناد ضعيف، ابن أبى ليلى سيء الحفظ.
سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما - جو کہ عرفہ سے واپسی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ردیف تھے - کہتے ہیں کہ لوگ اپنی سواریوں کو تیزی سے دوڑا رہے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر منادی نے یہ اعلان کر دیا کہ ”گھوڑے اور اونٹ تیز دوڑانا کوئی نیکی نہیں ہے، اس لئے تم اطمینان و سکون اختیار کرو۔“
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لضعف ابن أبى ليلى، وله طريق آخر يتقوى به.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل خانہ سے قربت کے سبب اختیاری طور پر غسل کے ضرورت مند ہوتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز سے قبل غسل فرما لیتے اور اس دن کا روزہ رکھ لیتے۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ذکر کی تو انہوں نے کہا کہ مجھے تو پتہ نہیں، البتہ فضل بن عباس رضی اللہ عنہما نے مجھے یہ روایت سنائی ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح.
سیدنا فضل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں مزدلفہ سے منیٰ کی طرف واپسی پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ردیف تھا، ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم چل ہی رہے تھے کہ ایک دیہاتی اپنے پیچھے اپنی ایک خوبصورت بیٹی کو بٹھا کر لے آیا، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے باتوں میں مشغول ہو گیا اور میں اس لڑکی کو دیکھنے لگا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھ لیا اور میرے چہرے کا رخ اس طرف سے موڑ دیا، میں نے دوبارہ اس کی طرف دیکھنا شروع کر دیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر میرے چہرے کا رخ بدل دیا، تین مرتبہ اسی طرح ہوا لیکن میں باز نہ آتا تھا، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمرہ عقبہ کی رمی تک مسلسل تلبیہ پڑھتے رہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 1543، م: 1281.
سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یوم النحر کو جمرہ عقبہ کی رمی تک تلبیہ کہتے رہے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 1543 م: 1281.
سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ مزدلفہ سے واپسی پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر پیچھے سوار تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمرہ عقبہ کی رمی تک تلبیہ کہتے رہے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 1543، م: 1281.
سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ مزدلفہ سے واپسی پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر پیچھے سوار تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم یوم النحر کو جمرہ عقبہ کی رمی تک تلبیہ کہتے رہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 1543، م: 1281. وهذا إسناد ضعيف لضعف على بن زيد بن جدعان.
سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ مزدلفہ سے واپسی پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر پیچھے سوار تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم یوم النحر کو جمرہ عقبہ کی رمی تک تلبیہ کہتے رہے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح بواسطة عامر الأحول، خ: 1543، م: 1281. وفي هذا الإسناد جابر الجعفي ضعيف وكذا ابن عطاء، وهما متابعان من عامر الأحول.
سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ مزدلفہ سے واپسی پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر پیچھے سوار تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم یوم النحر کو جمرہ عقبہ کی رمی تک تلبیہ کہتے رہے۔
حكم دارالسلام: راجع ما قبله.
سیدنا فضل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ ”بنو ہاشم کی عورتیں اور بچے مزدلفہ سے رات ہی کو منیٰ جلدی چلے جائیں۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح.
سیدنا فضل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال پوچھا کہ میرے والد نے اسلام کا زمانہ پایا ہے، لیکن وہ بہت بوڑھے ہو چکے ہیں، اتنے کہ سواری پر بھی نہیں بیٹھ سکتے، کیا میں ان کی طرف سے حج کر سکتا ہوں؟ فرمایا: ”یہ بتاؤ کہ اگر تمہارے والد پر قرض ہوتا اور تم وہ ادا کرتے تو کیا وہ ادا ہوتا یا نہیں؟“ اس نے کہا: جی ہاں! فرمایا: ”پھر اپنے والد کی طرف سے حج کرو۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، سليمان بن يسار لم يدرك الفضل بن عباس، وهذا منقطع.
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وقول سليمان بن يسار: «حدثنا الفضل» خطأ يقيناً من أحد الرواة ، والصواب إثبات الواسطة بينه وبين الفضل، وهو عبدالله بن عباس.
سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ مزدلفہ سے واپسی پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر پیچھے سوار تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم یوم النحر کو جمرہ عقبہ کی رمی تک تلبیہ کہتے رہے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح بواسطة عامر الأحول، خ: 1543، م: 1281. وفي هذا الإسناد جابر الجعفي وابن عطاء ضعيفان ولكنهما توبعا.
سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یوم النحر کو جمرہ عقبہ کی رمی تک تلبیہ کہتے رہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ساتھ کنکریاں ماری تھیں اور ہر کنکری کے ساتھ تکبیر کہتے جا رہے تھے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح.
سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب عرفات سے روانہ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما بیٹھے ہوئے تھے، اونٹنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر گھومتی رہی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم روانگی سے قبل عرفات میں اپنے ہاتھوں کو بلند کئے کھڑے ہوئے تھے لیکن ہاتھوں کی بلندی سر سے تجاوز نہیں کرتی تھی، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے روانہ ہو گئے تو اطمینان اور وقار سے چلتے ہوئے مزدلفہ پہنچے، اور جب مزدلفہ سے روانہ ہوئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سیدنا فضل رضی اللہ عنہ سوار تھے، وہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمرہ عقبہ کی رمی تک مسلسل تلبیہ پڑھتے رہے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح.
سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے کسی دیہات میں سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے ملاقات فرمائی، اس وقت ہمارے پاس ایک مؤنث کتا اور ایک مؤنث گدھا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز پڑھی تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہی رہے اور ان کے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کوئی چیز حائل نہ تھی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف فهو معضل، محمد بن عمر بن على لم يدرك الفضل.
سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ قبیلہ خثعم کی ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی: یا رسول اللہ! حج کے معاملے میں میرے والد پر اللہ کا فریضہ عائد ہو چکا ہے، لیکن وہ اتنے بوڑھے ہو چکے ہیں کہ سواری پر بھی نہیں بیٹھ سکتے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کی طرف سے تم حج کر لو۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 1513، م: 1335.
سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ کے اندر داخل ہوئے لیکن نماز نہیں پڑھی، البتہ باہر نکل کر باب کعبہ کے سامنے دو رکعتیں پڑھی تھیں۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح.
سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب عرفات سے روانہ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما بیٹھے ہوئے تھے یہاں تک کہ مزدلفہ پہنچے، اور جب مزدلفہ سے روانہ ہوئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سیدنا فضل رضی اللہ عنہ سوار تھے یہاں تک کہ منیٰ پہنچے، وہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمرہ عقبہ کی رمی تک مسلسل تلبیہ پڑھتے رہے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 1543، م: 1681.
سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ عرفہ کی رات گذارنے کے بعد جب صبح کے وقت ہم نے وادی مزدلفہ کو چھوڑا ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا: ”اطمینان اور سکون اختیار کرو۔“ اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری کو تیز چلنے سے روک رہے تھے، یہاں تک کہ وادی محسر سے اتر کر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم منی میں داخل ہوئے تو فرمایا: ”ٹھیکری کی کنکریاں لے لو تاکہ رمی جمرات کی جا سکے،“ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کرنے لگے جس طرح انسان کنکری پھینکتے وقت کرتا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 1682.
سیدنا فضل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ قبیلہ خثعم کی ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی: یا رسول اللہ! حج کے معاملے میں میرے والد پر اللہ کا فریضہ عائد ہو چکا ہے لیکن وہ اتنے بوڑھے ہو چکے ہیں کہ سواری پر بھی نہیں بیٹھ سکتے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کی طرف سے تم حج کر لو۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 1853، م: 1335.
سیدنا فضل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں مزدلفہ سے منیٰ کی طرف واپسی پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ردیف تھا، ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم چل ہی رہے تھے کہ ایک دیہاتی اپنے پیچھے اپنی ایک خوبصورت بیٹی کو بٹھا کر لے آیا، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے باتوں میں مشغول ہو گیا اور میں اس لڑکی کو دیکھنے لگا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھ لیا اور میرے چہرے کا رخ اس طرف سے موڑ دیا، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمرہ عقبہ کی رمی تک مسلسل تلبیہ پڑھتے رہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح.
سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک دن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلا، اچانک ہمارے قریب سے ایک ہرن گذر کر ایک سوراخ میں گھس گیا، میں نے اسے پکڑ لیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا آپ نے شگون لیا ہے؟ فرمایا: ”شگون تو ان چیزوں میں ہوتا ہے جو گذر گئی ہوں۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، ابن علاثة ضعيف ومسلمة الجهني مجهول ثم هو لم يدرك الفضل بن عباس.
سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمرہ عقبہ کی رمی تک تلبیہ کہتے رہے تھے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 1543، م: 1281.
یعلی بن عقبہ نے ماہ رمضان میں شادی کی، رات اپنی بیوی کے پاس گذاری، صبح ہوئی تو وہ جنبی تھے، انہوں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی اور ان سے یہ مسئلہ پوچھا، انہوں نے فرمایا کہ روزہ نہ رکھو، یعلی نے کہا کہ میں آج کا روزہ رکھ کر کسی دوسرے دن کی نیت نہ کر لوں؟ فرمایا: روزہ نہ رکھو۔ پھر یعلی مروان کے پاس آئے اور ان سے یہ واقعہ بیان کیا۔ مروان نے ابوبکر بن عبدالرحمن کو ام المومنین کے پاس یہ مسئلہ دریافت کرنے کے لئے بھیجا، انہوں نے فرمایا کہ بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی صبح کے وقت جنبی ہوتے تھے اور ایسا ہونا احتلام کی وجہ سے نہیں ہوتا تھا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم روزہ بھی رکھ لیتے تھے۔ قاصد نے مروان کے پاس آ کر یہ بات بتا دی، مروان نے یعلی سے کہا کہ جا کر یہ بات سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو بتانا، یعلی نے کہا کہ وہ میرے پڑوسی ہیں، مروان نے کہا کہ میں تمہیں قسم دیتا ہوں کہ ان سے مل کر انہیں یہ بات ضرور بتانا۔ چنانچہ یعلی نے ان سے ملاقات کی اور انہیں یہ حدیث سنائی، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ میں نے وہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے خود نہیں سنی تھی، بلکہ مجھے وہ بات فضل بن عباس رضی اللہ عنہما نے بتائی تھی، راوی کہتے ہیں کہ بعد میں میری ملاقات رجاء سے ہوئی تو میں نے ان سے پوچھا کہ یعلی کی یہ حدیث آپ سے کس نے بیان کی ہے؟ انہوں نے فرمایا: خود یعلی نے مجھے یہ حدیث سنائی ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح.
سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ مزدلفہ سے واپسی پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر پیچھے سوار تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمرہ عقبہ کی رمی تک تلبیہ کہتے رہے۔
حكم دارالسلام: صحيح، خ: 1543، م: 1281، وهذا إسناد ضعيف لضعف على بن زيد.
سیدنا فضل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں دس ذی الحجہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ردیف تھا، ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم چل ہی رہے تھے کہ ایک دیہاتی اپنے پیچھے اپنی ایک خوبصورت بیٹی کو بٹھا کر لے آیا، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے باتوں میں مشغول ہو گیا اور میں اس لڑکی کو دیکھنے لگا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھ لیا اور میرے چہرے کا رخ اس طرف سے موڑ دیا، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمرہ عقبہ کی رمی تک مسلسل تلبیہ پڑھتے رہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح.
سیدنا فضل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عرفہ سے روانگی کے وقت وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ردیف تھے، آپ کی سواری صبح تک مسلسل چلتی رہی، تا آنکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مزدلفہ پہنچ گئے۔ امام شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ وہ مزدلفہ سے واپسی کے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ردیف تھے، اور آپ کی سواری مسلسل چلتی رہی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرہ عقبہ کی رمی کر لی۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، الشعبي لم يدرك الفضل بن عباس، وأيضاً لم يدرك أسامة، وإن أدرك أسامة لم يسمع منه.
سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ کے اندر کھڑے ہوئے اور تسبیح و تکبیر کہی، اللہ سے دعا کی اور استغفار کیا، لیکن رکوع سجدہ نہیں کیا۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح.
سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات سے مزدلفہ کی طرف جاتے ہوئے سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو اپنے پیچھے بٹھا رکھا تھا، اور وہ مزدلفہ سے واپسی پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر پیچھے سوار تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمرہ عقبہ کی رمی تک تلبیہ کہتے رہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، خ: 1543، م: 1281. خصيف وإن كان سيء الحفظ قد توبع.
سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ مزدلفہ سے واپسی پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر پیچھے سوار تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمرہ عقبہ کی رمی تک تلبیہ کہتے رہے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 1543، م: 1281.
سیدنا فضل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جس شخص کا حج کا ارادہ ہو، اسے یہ ارادہ جلد پورا کر لینا چاہیے، کیونکہ بعض اوقات سواری گم ہو جاتی ہے، کبھی کوئی بیمار ہو جاتا ہے اور کبھی کوئی ضرورت آڑے آ جاتی ہے۔“
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف، أبو إسرائيل سيء الحفظ لكنه توبع.
سیدنا فضل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جس شخص کا حج کا ارادہ ہو، اسے یہ ارادہ جلد پورا کر لینا چاہیے، کیونکہ بعض اوقات سواری گم ہو جاتی ہے، کبھی کوئی بیمار ہو جاتا ہے اور کبھی کوئی ضرورت آڑے آ جاتی ہے۔“
حكم دارالسلام: حديث حسن.
|