(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن بكر ، حدثنا حاتم يعني ابن ابي صغيرة ، حدثني بعض بني عبد المطلب، قال: قدم علينا علي بن عبد الله بن عباس في بعض تلك المواسم، قال: فسمعته يقول: حدثني ابي عبد الله بن عباس ، عن ابيه العباس ، انه اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقال: يا رسول الله، انا عمك، كبرت سني واقترب اجلي فعلمني شيئا ينفعني الله به، قال:" يا عباس، انت عمي , ولا اغني عنك من الله شيئا، ولكن سل ربك العفو والعافية في الدنيا والآخرة"، قالها ثلاثا، ثم اتاه عند قرن الحول، فقال له مثل ذلك.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَكْرٍ ، حَدَّثَنَا حَاتِمٌ يَعْنِي ابْنَ أَبِي صَغِيرَةَ ، حَدَّثَنِي بَعْضُ بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، قَالَ: قَدِمَ عَلَيْنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ فِي بَعْضِ تِلْكَ الْمَوَاسِمِ، قَالَ: فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: حَدَّثَنِي أَبِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ ، عَنْ أَبِيهِ الْعَبَّاسِ ، أَنَّهُ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَا عَمُّكَ، كَبِرَتْ سِنِّي وَاقْتَرَبَ أَجَلِي فَعَلِّمْنِي شَيْئًا يَنْفَعُنِي اللَّهُ بِهِ، قَالَ:" يَا عَبَّاسُ، أَنْتَ عَمِّي , وَلَا أُغْنِي عَنْكَ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، وَلَكِنْ سَلْ رَبَّكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ"، قَالَهَا ثَلَاثًا، ثُمَّ أَتَاهُ عِنْدَ قَرْنِ الْحَوْلِ، فَقَالَ لَهُ مِثْلَ ذَلِكَ.
ایک مرتبہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگے: یا رسول اللہ! میں آپ کا چچا ہوں، میں بوڑھا ہوچکا ہوں اور میری موت کا وقت قریب ہے، مجھے کوئی ایسی دعا سکھا دیجئے جس کے ذریعے اللہ مجھے نفع عطاء فرمائے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عباس! آپ واقعی میرے چچا ہیں، لیکن میں اللہ کے معاملے میں آپ کے کسی کام نہیں آ سکتا، البتہ آپ اپنے رب سے دنیا و آخرت میں درگزر اور عافیت کی دعا مانگتے رہا کریں۔“ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمائی، پھر سیدنا عباس رضی اللہ عنہ ایک سال بعد دوبارہ آئے، تب بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہی دعا تلقین فرمائی۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة الرجل من بني المطلب.