مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر

مسند احمد
23. حَدِیث العَبَّاسِ بنِ عَبدِ المطَّلِبِ رَضِیَ اللَّه عَنه عَن النَّبِیِّ صَلَّى اللَّه عَلَیهِ وَسَلَّمَ
حدیث نمبر: 1782
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثنا ابن اخي ابن شهاب ، عن عمه محمد بن مسلم ، قال: اخبرني مالك بن اوس بن الحدثان النصري ، فذكر الحديث، قال: فبينا انا جالس عنده اتاه حاجبه يرفا، فقال لعمر: هل لك في عثمان , وعبد الرحمن , وسعد , والزبير يستاذنون؟ قال: نعم، ائذن لهم، قال: فدخلوا فسلموا وجلسوا , قال: ثم لبث يرفا قليلا، فقال لعمر هل لك في علي , وعباس؟ فقال: نعم، فاذن لهما، فلما دخلا عليه جلسا، فقال عباس: يا امير المؤمنين، اقض بيني وبين علي رضي الله عنه؟ فقال الرهط عثمان واصحابه: اقض بينهما , وارح احدهما من الآخر، فقال عمر رضي الله عنه: اتئدوا، فانشدكم بالله الذي بإذنه تقوم السماء والارض، هل تعلمون ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال:" لا نورث ما تركنا صدقة"، يريد بذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم نفسه؟ قال الرهط: قد قال ذلك، فاقبل عمر على علي , وعباس رضي الله عنهما، فقال: انشدكما بالله، هل تعلمان ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال ذلك؟ قالا: قد قال ذلك، فقال عمر: فإني احدثكم عن هذا الامر، إن الله عز وجل كان خص رسوله في هذا الفيء بشيء لم يعطه احدا غيره، فقال الله تعالى وما افاء الله على رسوله منهم فما اوجفتم سورة الحشر آية 6، فكانت هذه الآية خاصة لرسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم والله ما احتازها، ولا استاثر بها عليكم، لقد اعطاكموها وبثها فيكم، حتى بقي منها هذا المال، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم ينفق على اهله نفقة سنتهم من هذا المال، ثم ياخذ ما بقي منه، فيجعله مجعل مال الله، فعمل بذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم حياته، انشدكم الله، هل تعلمون ذلك؟ قالوا: نعم، قال لعلي , وعباس، فانشدكما بالله، هل تعلمان ذلك؟ قالا: نعم، ثم توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال ابو بكر: انا ولي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقبضها ابو بكر رضي الله تعالى عنه، فعمل فيها بما عمل به فيها رسول الله صلى الله عليه وسلم، وانتم حينئذ، واقبل على علي , وعباس، تزعمان ان ابا بكر فيها كذا، والله يعلم إنه فيها لصادق بار راشد تابع للحق.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عَمِّهِ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَالِكُ بْنُ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ النَّصْرِيُّ ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، قَالَ: فَبَيْنَا أَنَا جَالِسٌ عِنْدَهُ أَتَاهُ حَاجِبُهُ يَرْفَأُ، فَقَالَ لِعُمَرَ: هَلْ لَكَ فِي عُثْمَانَ , وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ , وَسَعْدٍ , وَالزُّبَيْرِ يَسْتَأْذِنُونَ؟ قَالَ: نَعَمْ، ائْذَنْ لَهُمْ، قَالَ: فَدَخَلُوا فَسَلَّمُوا وَجَلَسُوا , قَالَ: ثُمَّ لَبِثَ يَرْفَأُ قَلِيلًا، فَقَالَ لِعُمَرَ هَلْ لَكَ فِي عَلِيٍّ , وَعَبَّاسٍ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، فَأَذِنَ لَهُمَا، فَلَمَّا دَخَلَا عَلَيْهِ جَلَسَا، فَقَالَ عَبَّاسٌ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ؟ فَقَالَ الرَّهْطُ عُثْمَانُ وَأَصْحَابُهُ: اقْضِ بَيْنَهُمَا , وَأَرِحْ أَحَدَهُمَا مِنَ الْآخَرِ، فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: اتَّئِدُوا، فَأَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ، هَلْ تَعْلَمُونَ أَن َّرَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ"، يُرِيدُ بِذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَفْسَهُ؟ قَالَ الرَّهْطُ: قَدْ قَالَ ذَلِكَ، فَأَقْبَلَ عُمَرُ عَلَى عَلِيٍّ , وَعَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فَقَالَ: أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ، هَلْ تَعْلَمَانِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ ذَلِكَ؟ قَالَا: قَدْ قَالَ ذَلِكَ، فَقَالَ عُمَرُ: فَإِنِّي أُحَدِّثُكُمْ عَنْ هَذَا الْأَمْرِ، إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ كَانَ خَصَّ رَسُولَهُ فِي هَذَا الْفَيْءِ بِشَيْءٍ لَمْ يُعْطِهِ أَحَدًا غَيْرَهُ، فَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ سورة الحشر آية 6، فَكَانَتْ هَذِهِ الْآيَةُ خَاصَّةً لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ وَاللَّهِ مَا احْتَازَهَا، وَلَا اسْتَأْثَرَ بِهَا عَلَيْكُمْ، لَقَدْ أَعْطَاكُمُوهَا وَبَثَّهَا فِيكُمْ، حَتَّى بَقِيَ مِنْهَا هَذَا الْمَالُ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنْفِقُ عَلَى أَهْلِهِ نَفَقَةَ سَنَتِهِمْ مِنْ هَذَا الْمَالِ، ثُمَّ يَأْخُذُ مَا بَقِيَ مِنْهُ، فَيَجْعَلُهُ مَجْعَلَ مَالِ اللَّهِ، فَعَمِلَ بِذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيَاتَهُ، أَنْشُدُكُمْ اللَّهَ، هَلْ تَعْلَمُونَ ذَلِكَ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ لِعَلِيٍّ , وَعَبَّاسٍ، فَأَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ، هَلْ تَعْلَمَانِ ذَلِكَ؟ قَالَا: نَعَمْ، ثُمَّ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَبَضَهَا أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ، فَعَمِلَ فِيهَا بِمَا عَمِلَ بِهِ فِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنْتُمْ حِينَئِذٍ، وَأَقْبَلَ عَلَى عَلِيٍّ , وَعَبَّاسٍ، تَزْعُمَانِ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ فِيهَا كَذَا، وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُ فِيهَا لَصَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ.
مالک بن اوس بن حدثان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مجھے پیغام بھیج کر بلوایا، ابھی ہم بیٹھے ہوئے تھے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا غلام - جس کا نام یرفا تھا - اندر آیا اور کہنے لگا کہ سیدنا عثمان، سیدنا عبدالرحمن، سیدنا سعد اور سیدنا زبیر بن العوام رضی اللہ عنہم اجمعین اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں؟ فرمایا: بلا لو، تھوڑی دیر بعد وہ غلام پھر آیا اور کہنے لگا کہ سیدنا عباس اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں؟ فرمایا: انہیں بھی بلا لو۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے اندر داخل ہوتے ہی فرمایا: امیر المومنین! میرے اور اس کے درمیان فیصلہ کر دیجئے، اس وقت ان کا جھگڑا بنو نضیر سے حاصل ہونے والے مال فئی کے بارے میں تھا، لوگوں نے بھی کہا کہ امیر المومنین! ان کے درمیان فیصلہ کر دیجئے اور ہر ایک کو دوسرے سے راحت عطاء فرمائیے کیونکہ اب ان کا جھگڑا بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں تمہیں اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے زمین آسمان قائم ہیں، کیا آپ لوگ جانتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ہمارے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی، ہم جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ سب صدقہ ہوتا ہے؟ لوگوں نے اثبات میں جواب دیا، پھر انہوں نے سیدنا عباس و سیدنا علی رضی اللہ عنہما سے بھی یہی سوال پوچھا اور انہوں نے بھی تائید کی، اس کے بعد انہوں نے فرمایا کہ میں تمہیں اس کی حقیقت سے آگاہ کرتا ہوں۔ اللہ نے یہ مال فئی خصوصیت کے ساتھ صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا تھا، کسی کو اس میں سے کچھ نہیں دیا تھا اور فرمایا تھا: «﴿وَمَا أَفَاءَ اللّٰهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ﴾ [الحشر: 6] » اور جو (مال) خدا نے اپنے پیغمبر کو ان لوگوں سے (بغیر لڑائی بھڑائی کے) دلوایا ہے اس میں تمہارا کچھ حق نہیں کیونکہ اس کے لئے نہ تم نے گھوڑے دوڑائے نہ اونٹ۔ اس لئے یہ مال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے خاص تھا، لیکن واللہ! انہوں نے تمہیں چھوڑ کر اسے اپنے لئے محفوظ نہیں کیا اور نہ ہی اس مال کو تم پر ترجیح دی، انہوں نے یہ مال بھی تمہارے درمیان تقسیم کر دیا یہاں تک کہ یہ تھوڑا سا بچ گیا جس میں سے وہ اپنے اہل خانہ کو سال بھر کا نفقہ دیا کرتے تھے، اور اس میں سے بھی اگر کچھ بچ جاتا تو اسے اللہ کے راستہ میں تقسیم کر دیتے، اور وہ اپنی زندگی میں اسی طریقے پر عمل کرتے رہے، میں تم سے اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں، کیا تم بھی یہ بات جانتے ہو؟ لوگوں نے کہا: جی ہاں! پھر انہوں نے سیدنا عباس اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما سے بھی یہی سوال پوچھا اور انہوں نے بھی یہی جواب دیا۔ پھر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ان کے مال کا ذمہ دار اور سرپرست میں ہوں، چنانچہ انہوں نے اس میں وہی طریقہ اختیار کیا جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم چلتے رہے، اور اب تم (انہوں نے سیدنا عباس اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا) یہ سمجھتے ہو کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ایسے تھے، حالانکہ اللہ جانتا ہے کہ وہ اس معاملے میں سچے، نیکوکار، راہ راست پر اور حق کی تابعداری کرنے والے تھے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 3094، م: 1757.


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.