وقوله والشعراء يتبعهم الغاوون {224} الم تر انهم في كل واد يهيمون {225} وانهم يقولون ما لا يفعلون {226} إلا الذين آمنوا وعملوا الصالحات وذكروا الله كثيرا وانتصروا من بعد ما ظلموا وسيعلم الذين ظلموا اي منقلب ينقلبون {227} سورة الشعراء آية 224-227 قال ابن عباس في كل لغو يخوضونوَقَوْلِهِ وَالشُّعَرَاءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوُونَ {224} أَلَمْ تَرَ أَنَّهُمْ فِي كُلِّ وَادٍ يَهِيمُونَ {225} وَأَنَّهُمْ يَقُولُونَ مَا لا يَفْعَلُونَ {226} إِلا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَذَكَرُوا اللَّهَ كَثِيرًا وَانْتَصَرُوا مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوا وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ {227} سورة الشعراء آية 224-227 قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فِي كُلِّ لَغْوٍ يَخُوضُونَ
اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ الشعراء میں) فرمایا ”شاعروں کی پیروی وہی لوگ کرتے ہیں جو گمراہ ہیں، کیا تم نہیں دیکھتے ہو کہ وہ ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں اور وہ، وہ باتیں کہتے ہیں جو خود نہیں کرتے۔ سوا ان لوگوں کے جو ایمان لے آئے اور جنہوں نے عمل صالح کئے اور اللہ کا کثرت سے ذکر کیا اور جب ان پر ظلم کیا گیا تو انہوں نے اس کا بدلہ لیا اور ظلم کرنے والوں کو جلد ہی معلوم ہو جائے گا کہ ان کا انجام کیا ہوتا ہے۔“ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ «في كل لغو يخوضون.» کا مطلب یہ ہے کہ ہر ایک لغو بےہودہ بات میں گھستے ہیں۔
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ کو ابوبکر بن عبدالرحمٰن نے خبر دی، انہیں مروان بن حکم نے خبر دی، انہیں عبدالرحمٰن بن اسود بن عبد یغوث نے خبر دی، انہیں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”بعض شعروں میں دانائی ہوتی ہے۔“
(مرفوع) حدثنا ابو نعيم، حدثنا سفيان، عن الاسود بن قيس، سمعت جندبا، يقول: بينما النبي صلى الله عليه وسلم يمشي إذ اصابه حجر فعثر فدميت إصبعه فقال:" هل انت إلا إصبع دميت وفي سبيل الله ما لقيت".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ قَيْسٍ، سَمِعْتُ جُنْدَبًا، يَقُولُ: بَيْنَمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْشِي إِذْ أَصَابَهُ حَجَرٌ فَعَثَرَ فَدَمِيَتْ إِصْبَعُهُ فَقَالَ:" هَلْ أَنْتِ إِلَّا إِصْبَعٌ دَمِيتِ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ مَا لَقِيتِ".
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے اسود بن قیس نے، انہوں نے کہا کہ میں نے جندب بن عبداللہ بجلی سے سنا، انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چل رہے تھے کہ آپ کو پتھر سے ٹھوکر لگی اور آپ گر پڑے، اس سے آپ کی انگلی سے خون بہنے لگا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ شعر پڑھا ”تو تو اک انگلی ہے اور کیا ہے جو زخمی ہو گئی ... کیا ہوا اگر راہ مولیٰ میں تو زخمی ہو گئی۔“
Narrated Jundub: While the Prophet was walking, a stone hit his foot and stumbled and his toe was injured. He then (quoting a poetic verse) said, "You are not more than a toe which has been bathed in blood in Allah's Cause."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 73, Number 167
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا ابن مهدي، حدثنا سفيان، عن عبد الملك، حدثنا ابو سلمة، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال النبي صلى الله عليه وسلم:" اصدق كلمة قالها الشاعر كلمة لبيد، الا كل شيء ما خلا الله باطل" وكاد امية بن ابي الصلت ان يسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ، حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَصْدَقُ كَلِمَةٍ قَالَهَا الشَّاعِرُ كَلِمَةُ لَبِيدٍ، أَلَا كُلُّ شَيْءٍ مَا خَلَا اللَّهَ بَاطِلُ" وَكَادَ أُمَيَّةُ بْنُ أَبِي الصَّلْتِ أَنْ يُسْلِمَ.
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن مہدی نے بیان کیا، ان سے سفیان نے بیان کیا، ان سے عبدالملک نے، انہوں نے کہا ہم سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کی شعراء کے کلام میں سے سچا کلمہ لبید کا مصرعہ ہے جو یہ ہے کہ اللہ کے سوا جو کچھ ہے سب معدوم و فنا ہونے والا ہے۔ امیہ بن ابی الصلت شاعر تو قریب تھا کہ مسلمان ہو جائے۔
Narrated Abu Huraira: The Prophet said, "The most true words said by a poet were the words of Labid. He said, i.e. 'Verily, everything except Allah is perishable and Umaiya bin Abi As-Salt was about to embrace Islam .
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 73, Number 168
(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا حاتم بن إسماعيل، عن يزيد بن ابي عبيد، عن سلمة بن الاكوع، قال: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى خيبر فسرنا ليلا، فقال رجل من القوم لعامر بن الاكوع: الا تسمعنا من هنيهاتك؟ قال: وكان عامر رجلا شاعرا فنزل يحدو بالقوم يقول:" اللهم لولا انت ما اهتدينا ولا تصدقنا ولا صلينا فاغفر فداء لك ما اقتفينا وثبت الاقدام إن لاقينا والقين سكينة علينا إنا إذا صيح بنا اتينا وبالصياح عولوا علينا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من هذا السائق؟" قالوا: عامر بن الاكوع، فقال:" يرحمه الله" فقال رجل من القوم: وجبت يا نبي الله لولا امتعتنا به، قال: فاتينا خيبر فحاصرناهم حتى اصابتنا مخمصة شديدة، ثم إن الله فتحها عليهم، فلما امسى الناس اليوم الذي فتحت عليهم اوقدوا نيرانا كثيرة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما هذه النيران على اي شيء توقدون؟ قالوا: على لحم، قال:" على اي لحم؟" قالوا: على لحم حمر إنسية، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اهرقوها واكسروها" فقال رجل: يا رسول الله او نهريقها ونغسلها، قال:" او ذاك"، فلما تصاف القوم كان سيف عامر فيه قصر فتناول به يهوديا ليضربه ويرجع ذباب سيفه فاصاب ركبة عامر فمات منه، فلما قفلوا قال سلمة: رآني رسول الله صلى الله عليه وسلم شاحبا فقال لي:" ما لك؟" فقلت: فدى لك ابي وامي زعموا ان عامرا حبط عمله، قال:" من قاله؟" قلت: قاله فلان وفلان وفلان، واسيد بن الحضير الانصاري، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" كذب من قاله، إن له لاجرين، وجمع بين إصبعيه إنه لجاهد مجاهد قل عربي نشا بها مثله".(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى خَيْبَرَ فَسِرْنَا لَيْلًا، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ لِعَامِرِ بْنِ الْأَكْوَعِ: أَلَا تُسْمِعُنَا مِنْ هُنَيْهَاتِكَ؟ قَالَ: وَكَانَ عَامِرٌ رَجُلًا شَاعِرًا فَنَزَلَ يَحْدُو بِالْقَوْمِ يَقُولُ:" اللَّهُمَّ لَوْلَا أَنْتَ مَا اهْتَدَيْنَا وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّيْنَا فَاغْفِرْ فِدَاءٌ لَكَ مَا اقْتَفَيْنَا وَثَبِّتِ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَيْنَا وَأَلْقِيَنْ سَكِينَةً عَلَيْنَا إِنَّا إِذَا صِيحَ بِنَا أَتَيْنَا وَبِالصِّيَاحِ عَوَّلُوا عَلَيْنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ هَذَا السَّائِقُ؟" قَالُوا: عَامِرُ بْنُ الْأَكْوَعِ، فَقَالَ:" يَرْحَمُهُ اللَّهُ" فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: وَجَبَتْ يَا نَبِيَّ اللَّهِ لَوْلَا أَمْتَعْتَنَا بِهِ، قَالَ: فَأَتَيْنَا خَيْبَرَ فَحَاصَرْنَاهُمْ حَتَّى أَصَابَتْنَا مَخْمَصَةٌ شَدِيدَةٌ، ثُمَّ إِنَّ اللَّهَ فَتَحَهَا عَلَيْهِمْ، فَلَمَّا أَمْسَى النَّاسُ الْيَوْمَ الَّذِي فُتِحَتْ عَلَيْهِمْ أَوْقَدُوا نِيرَانًا كَثِيرَةً، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا هَذِهِ النِّيرَانُ عَلَى أَيِّ شَيْءٍ تُوقِدُونَ؟ قَالُوا: عَلَى لَحْمٍ، قَالَ:" عَلَى أَيِّ لَحْمٍ؟" قَالُوا: عَلَى لَحْمِ حُمُرٍ إِنْسِيَّةٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَهْرِقُوهَا وَاكْسِرُوهَا" فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَوْ نُهَرِيقُهَا وَنَغْسِلُهَا، قَالَ:" أَوْ ذَاكَ"، فَلَمَّا تَصَافَّ الْقَوْمُ كَانَ سَيْفُ عَامِرٍ فِيهِ قِصَرٌ فَتَنَاوَلَ بِهِ يَهُودِيًّا لِيَضْرِبَهُ وَيَرْجِعُ ذُباب سَيْفِهِ فَأَصَابَ رُكْبَةَ عَامِرٍ فَمَاتَ مِنْهُ، فَلَمَّا قَفَلُوا قَالَ سَلَمَةُ: رَآنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَاحِبًا فَقَالَ لِي:" مَا لَكَ؟" فَقُلْتُ: فِدًى لَكَ أَبِي وَأُمِّي زَعَمُوا أَنَّ عَامِرًا حَبِطَ عَمَلُهُ، قَالَ:" مَنْ قَالَهُ؟" قُلْتُ: قَالَهُ فُلَانٌ وَفُلَانٌ وَفُلَانٌ، وَأُسَيْدُ بْنُ الْحُضَيْرِ الْأَنْصَارِيُّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَذَبَ مَنْ قَالَهُ، إِنَّ لَهُ لَأَجْرَيْنِ، وَجَمَعَ بَيْنَ إِصْبَعَيْهِ إِنَّهُ لَجَاهِدٌ مُجَاهِدٌ قَلَّ عَرَبِيٌّ نَشَأَ بِهَا مِثْلَهُ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے حاتم بن اسماعیل نے، ان سے برید ابن ابی عبید نے اور ان سے سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ خیبر میں گئے اور ہم نے رات میں سفر کیا، اتنے میں مسلمانوں کے آدمی نے عامر بن اکوع رضی للہ عنہ سے کہا کہ اپنے کچھ شعر اشعار سناؤ۔ راوی نے بیان کیا کہ عامر شاعر تھے۔ وہ لوگوں کو اپنی حدی سنانے لگے۔ ”اے اللہ! اگر تو نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پاتے نہ ہم صدقہ دے سکتے اور نہ نماز پڑھ سکتے۔ ہم تجھ پر فدا ہوں، ہم نے جو کچھ پہلے گناہ کئے ان کو تو معاف کر دے اور جب (دشمن سے) ہمارا سامنا ہو تو ہمیں ثابت قدم رکھ اور ہم پر سکون نازل فرما۔ جب ہمیں جنگ کے لیے بلایا جاتا ہے، تو ہم موجود ہو جاتے ہیں اور دشمن نے بھی پکار کر ہم سے نجات چاہی ہے۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ کون اونٹوں کو ہانک رہا ہے جو حدی گا رہا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا کہ عامر بن اکوع ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ پاک اس پر رحم کرے۔ ایک صحابی یعنی عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ! اب تو عامر شہید ہوئے۔ کاش اور چند روز آپ ہم کو عامر سے فائدہ اٹھانے دیتے۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر ہم خیبر آئے اور اس کو گھیر لیا اس گھراؤ میں ہم شدید فاقوں میں مبتلا ہوئے، پھر اللہ تعالیٰ نے خیبر والوں پر ہم کو فتح عطا فرمائی جس دن ان پر فتح ہوئی اس کی شام کو لوگوں نے جگہ جگہ آگ جلائی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ یہ آگ کیسی ہے، کس کام کے لیے تم لوگوں نے یہ آگ جلائی ہے؟ صحابہ نے عرض کیا کہ گوشت پکانے کے لیے۔ اس پر آپ نے دریافت فرمایا کس چیز کے گوشت کے لیے؟ صحابہ نے کہا کہ بستی کے پالتو گدھوں کا گوشت پکانے کے لیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گوشت کو برتنوں میں سے پھینک دو اور برتنوں کو توڑ دو۔ ایک صحابی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم گوشت تو پھینک دیں، مگر برتن توڑنے کے بجائے اگر دھو لیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا یوں ہی کر لو۔ جب لوگوں نے جنگ کی صف بندی کر لی تو عامر (ابن اکوع شاعر) نے اپنی تلوار سے ایک یہودی پر وار کیا، ان کی تلوار چھوٹی تھی اس کی نوک پلٹ کر خود ان کے گھٹنوں پر لگی اور اس کی وجہ سے ان کی شہادت ہو گئی۔ جب لوگ واپس آنے لگے تو سلمہ (عامر کے بھائی) نے بیان کیا کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ میرے چہرے کا رنگ بدلا ہوا ہے۔ دریافت فرمایا کہ کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! پر میرے ماں اور باپ فدا ہوں، لوگ کہہ رہے ہیں کہ عامر کے اعمال برباد ہو گئے۔ (کیونکہ ان کی موت خود ان کی تلوار سے ہوئی ہے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کس نے کہا؟ میں نے عرض کیا: فلاں، فلاں، فلاں اور اسید بن حضیر انصاری نے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے یہ بات کہی اس نے جھوٹ کہا ہے انہیں تو دوہرا اجر ملے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دو انگلیوں کو ملا کر اشارہ کیا کہ وہ عابد بھی تھا اور مجاہد بھی (تو عبادت اور جہاد دونوں کا ثواب اس نے پایا) عامر کی طرح تو بہت کم بہادر عرب میں پیدا ہوئے ہیں (وہ ایسا بہادر اور نیک آدمی تھا)۔
Narrated Salama bin Al-Aqwa: We went out with Allah's Apostle to Khaibar and we travelled during the night. A man amongst the people said to 'Amir bin Al-Aqwa', "Won't you let us hear your poetry?" 'Amir was a poet, and so he got down and started (chanting Huda) reciting for the people, poetry that keep pace with the camel's foot steps, saying, "O Allah! Without You we would not have been guided on the right path, neither would we have given in charity, nor would we have prayed. So please forgive us what we have committed. Let all of us be sacrificed for Your cause and when we meet our enemy, make our feet firm and bestow peace and calmness on us and if they (our enemy) will call us towards an unjust thing we will refuse. The infidels have made a hue and cry to ask others help against us. Allah's Apostle said, "Who is that driver (of the camels)?" They said, "He is 'Amir bin Al-Aqwa."' He said, "May Allah bestow His mercy on him." A man among the people said, Has Martyrdom been granted to him, O Allah's Prophet! Would that you let us enjoy his company longer." We reached (the people of) Khaibar and besieged them till we were stricken with severe hunger but Allah helped the Muslims conquer Khaibar. In the evening of its conquest the people made many fires. Allah's Apostle asked, "What are those fires? For what are you making fires?" They said, "For cooking meat." He asked, "What kind of meat?" They said, "Donkeys' meat." Allah's Apostle said, "Throw away the meat and break the cooking pots." A man said, O Allah's Apostle! Shall we throw away the meat and wash the cooking pots?" He said, "You can do that too." When the army files aligned in rows (for the battle), 'Amir's sword was a short one, and while attacking a Jew with it in order to hit him, the sharp edge of the sword turned back and hit 'Amir's knee and caused him to die. When the Muslims returned (from the battle), Salama said, Allah's Apostle saw me pale and said, 'What is wrong with you?"' I said, "Let my parents be sacrificed for you! The people claim that all the deeds of Amir have been annulled." The Prophet asked, "Who said so?" I replied, "So-and-so and soand- so and Usaid bin Al-Hudair Al-Ansari said, 'Whoever says so is telling a lie. Verily, 'Amir will have double reward."' (While speaking) the Prophet put two of his fingers together to indicate that, and added, "He was really a hard-working man and a Mujahid (devout fighter in Allah's Cause) and rarely have there lived in it (i.e., Medina or the battle-field) an "Arab like him."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 73, Number 169
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا إسماعيل، حدثنا ايوب، عن ابي قلابة، عن انس بن مالك رضي الله عنه، قال: اتى النبي صلى الله عليه وسلم على بعض نسائه ومعهن ام سليم، فقال:" ويحك يا انجشة رويدك سوقا بالقوارير"، قال ابو قلابة فتكلم النبي صلى الله عليه وسلم بكلمة لو تكلم بها بعضكم لعبتموها عليه قوله:" سوقك بالقوارير".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أَتَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى بَعْضِ نِسَائِهِ وَمَعَهُنَّ أُمُّ سُلَيْمٍ، فَقَالَ:" وَيْحَكَ يَا أَنْجَشَةُ رُوَيْدَكَ سَوْقًا بِالْقَوَارِيرِ"، قَالَ أَبُو قِلَابَةَ فَتَكَلَّمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَلِمَةٍ لَوْ تَكَلَّمَ بِهَا بَعْضُكُمْ لَعِبْتُمُوهَا عَلَيْهِ قَوْلُهُ:" سَوْقَكَ بِالْقَوَارِيرِ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ایوب سختیانی نے بیان کیا، ان سے ابوقلابہ نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (ایک سفر کے موقع پر) اپنی عورتوں کے پاس آئے جو اونٹوں پر سوار جا رہی تھیں، ان کے ساتھ ام سلیم رضی اللہ عنہا انس کی والدہ بھی تھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ افسوس، انجشہ! شیشوں کو آہستگی سے لے چل۔ ابوقلابہ نے کہا کہ نبی کریم نے عورتوں سے متعلق ایسے الفاظ کا استعمال فرمایا کہ اگر تم میں کوئی شخص استعمال کرے تو تم اس پر عیب جوئی کرو۔ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ شیشوں کو نرمی سے لے چل۔
Narrated Anas bin Malik: The Prophet came to some of his wives among whom there was Um Sulaim, and said, "May Allah be merciful to you, O Anjasha! Drive the camels slowly, as they are carrying glass vessels!" Abu Qalaba said, "The Prophet said a sentence (i.e. the above metaphor) which, had anyone of you said it, you would have admonished him for it".
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 73, Number 170