حج کے مسائل حرم مدینہ اور اس کے شکار اور درخت کی حرمت اور اس کے لئے دعا کا بیان۔
سیدنا عبداللہ بن زید بن عاصم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کا حرم مقرر کیا (یعنی اس کی حرمت ظاہر کی ورنہ اس کی حرمت آسمان و زمین کے بننے کے دن سے تھی) اور اس کے لوگوں کے لئے دعا کی، اور میں مدینہ کو حرمت والا بناتا ہوں جیسے ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرمت والا کیا اور میں نے مدینہ کے صاع اور مد کے لئے دعا کی، اس کی دو مثل جو ابراہیم علیہ السلام نے اہل مکہ کے لئے دعا کی تھی۔
فاتح ایران سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں دونوں کالے پتھروں کے درمیان کی جگہ کو حرم مقرر کرتا ہوں کہ وہاں کا کانٹے دار درخت نہ کاٹا جائے اور نہ وہاں شکار مارا جائے۔ اور فرمایا کہ مدینہ ان کے لئے بہتر ہے کاش وہ اس کو سمجھتے (یہ خطاب ہے ان لوگوں کو جو مدینہ چھوڑ کر اور جگہ چلے جاتے ہیں یا تمام مسلمانوں کو) اور کوئی مدینہ کی سکونت اعراض کر کے نہیں چھوڑتا مگر اللہ تعالیٰ اس سے بہتر کوئی آدمی اس میں بھیج دیتا ہے اور نہیں کوئی صبر کرتا اس کی بھوک پیاس اور محنت و مشقت پر مگر میں قیامت کے دن اس کا شفیع یا گواہ ہوں گا۔
عامر بن سعد سے روایت ہے کہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ اپنے مکان کو چلے جو عقیق میں تھا کہ (راستے میں) ایک غلام کو دیکھا جو ایک درخت کاٹ رہا تھا یا پتے توڑ رہا تھا تو اس کا سامان چھین لیا۔ جب سیدنا سعد واپس آئے تو اس کے گھر والے آئے اور انہوں نے کہا کہ آپ وہ اس کو پھیر دیجئیے یا ہمیں عنایت کیجئے تو انہوں نے کہا: اس بات سے اللہ کی پناہ کہ میں وہ چیز پھیر دوں جو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطریق انعام عنایت کی ہے۔ اور انہوں نے اس کا سامان واپس کرنے سے انکار کر دیا۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! مدینہ میں مکہ سے دوگنی برکت دے۔
ابراہیم تیمی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ ہم پر سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے خطبہ پڑھا اور کہا کہ جو کوئی دعویٰ کرے کہ ہمارے پاس (یعنی اہل بیت کے پاس) کتاب اللہ اور اس صحیفہ، راوی نے کہا کہ صحیفہ ان کی تلوار کے میان میں لٹکا ہوا تھا، کے سوا کوئی اور چیز ہے تو اس نے جھوٹ کہا اور اس صحیفہ میں اونٹوں کی عمروں (زکوٰۃ کے متعلقات) اور کچھ زخموں کا بیان ہے (یعنی قصاص اور دیتوں کا بیان) اور اس صحیفہ میں یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مدینہ کا جبل عیر سے جبل ثور تک کا علاقہ حرم ہے۔ پس جو شخص مدینہ میں کوئی نئی بات ٭یعنی بدعت نکالے یا نئی بات نکالنے والے کو یعنی بدعتی کو جگہ دے تو اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے اور فرشتوں کی اور سب لوگوں کی بھی۔ اللہ تعالیٰ اس کا نہ کوئی فرض قبول کرے گا اور نہ سنت۔ اور امان دینا ہر مسلمان کا برابر ہے کہ ادنیٰ مسلمان کی پناہ دینے کا بھی اعتبار کیا جاتا ہے۔ اور جس نے اپنے آپ کو اپنے باپ کے سوا کسی غیر کا فرزند ٹھہرایا، یا اپنے آقاؤں کے سوا کسی دوسرے کا غلام اپنے آپ کو قرار دیا تو اس پر بھی اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہے اور اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کا نہ کوئی فرض قبول کرے گا اور نہ کوئی سنت۔ (٭ یہاں ”حدث“ سے مراد کوئی بھی جرم ہے اور اس میں یہ (بات یعنی بدعت) بھی شامل ہے)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہلا پھل آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعا کرتے کہ اے اللہ! ہمارے شہر میں اور ہمارے پھلوں میں اور ہمارے مدینہ میں اور ہمارے مد اور صاع میں برکت در برکت فرما۔ پھر وہ پھل، (مجلس میں) موجود بچوں میں سے سب سے چھوٹے بچے کو دے دیتے۔
|