حج کے مسائل عرفات میں وقوف اور اللہ تعالیٰ کے قول ((ثم افیضوا من حیث افاض الناس)) کے متعلق۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ قریش اور وہ لوگ جو قریش کے دین پر تھے، مزدلفہ میں وقوف کرتے تھے اور اپنے کو حمس کہتے تھے (ابوالہیثم نے کہا ہے کہ یہ نام قریش کا ہے اور ان کی اولاد کا اور کنانہ اور جدیلہ قیس کا اس لئے کہ وہ اپنے دین میں حمس رکھتے تھے یعنی تشدد اور سختی کرتے تھے) اور باقی عرب کے لوگ عرفہ میں وقوف کرتے تھے۔ پھر جب اسلام آیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرمایا کہ عرفات میں آئیں اور وہاں وقوف فرمائیں اور وہیں سے لوٹیں۔ اور یہی مطلب ہے اس آیت کا کہ ”وہیں سے لوٹو جہاں سے سب لوگ لوٹتے ہیں“۔
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرا ایک اونٹ کھو گیا، میں عرفہ کے دن اس کی تلاش میں نکلا تو کیا دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے ساتھ عرفات میں کھڑے ہیں تو میں نے کہا کہ اللہ کی قسم یہ تو حمس کے لوگ ہیں یہ یہاں تک کیسے آ گئے؟ (یعنی قریش تو مزدلفہ سے آگے نہیں آتے تھے) اور قریش حمس میں شمار کئے جاتے تھے (جو لوگ مزدلفہ سے باہر نہ جاتے تھے)۔
|