حج کے مسائل جب سے سواری اٹھے، اس وقت سے تلبیہ پکارنا۔
سیدنا عبید بن جریج سے روایت ہے کہ انہوں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا کہ اے ابوعبدالرحمن! میں نے تمہیں چار ایسے کام کرتے ہوئے دیکھا ہے جو تمہارے ساتھیوں میں سے کسی کو کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ انہوں نے کہا کہ اے جریج کے بیٹے! وہ کون سے کام ہیں؟ انہوں نے کہا کہ اول یہ کہ میں تمہیں دیکھتا ہوں کہ تم کعبہ کے کونوں میں سے (طواف کے وقت) ہاتھ نہیں لگاتے ہو مگر دو کونوں کو جو یمن کی طرف ہیں۔ دوسرے یہ کہ تم سبتی جوتے پہنتے ہو۔ تیسرے یہ کہ (زعفران و ورس وغیرہ سے داڑھی) رنگتے ہو۔ چوتھے یہ کہ جب تم مکہ میں ہوتے تھے، تو لوگوں نے چاند دیکھتے ہی لبیک پکارنا شروع کر دی تھی مگر آپ نے آٹھ ذی الحجہ کو پکاری۔ پس سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ (سنو!) ارکان تو میں نے نہیں دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو چھوتے ہوں سوا ان کے جو یمن کی طرف ہیں اور سبتی جوتے تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ وہ بھی ایسے جوتے پہنتے تھے جس میں بال نہ ہوں اور اسی میں وضو کرتے تھے (یعنی وضو کر کے گیلے پیر میں اس کو پہن لیتے تھے) پس میں بھی اس کو دوست رکھتا ہوں کہ میں بھی اسی کو پہنوں۔ رہی زردی تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ وہ بھی اس سے رنگتے تھے (یعنی بالوں کو یا کپڑوں کو) تو میں بھی پسند کرتا ہوں کہ اس سے رنگوں اور لبیک، تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لبیک پکارا ہو مگر جب اونٹنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سوار کر کے اٹھی (یعنی مسجد ذوالحلیفہ کے پاس)۔
|