نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے فضائل مناقب रसूल अल्लाह ﷺ के सहाबा की फ़ज़ीलत نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کا مدینہ کی طرف ہجرت کرنا۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب سے مجھے اپنے والدین کی شناخت ہوئی (اتنی عقل آئی) تو میں نے ان کو دین اسلام ہی پر پایا اور ہمارا کوئی دن نہیں گزرتا تھا کہ اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف نہ لائے ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم دن میں دو دفعہ آتے، صبح اور شام کو۔ پھر جب مسلمانوں کو (مشرکین سے) سخت تکالیف پہنچنے لگیں تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ حبشہ کی طرف ہجرت کی نیت سے نکلے یہاں تک کہ جب مقام برک غماد میں پہنچے تو وہاں ابن الدغنہ سے ملے، وہ قوم قارہ کا سردار تھا، اس نے کہا کہ اے ابوبکر! کہاں کا قصد ہے؟ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے میری قوم (قریش) نے نکال دیا ہے، میں چاہتا ہوں کہ زمین میں سیر و سیاحت کروں اور اپنے رب کی عبادت کروں۔ ابن الدغنہ نے کہا کہ اے ابوبکر! تیرے جیسے لوگ نہ نکلتے ہیں اور نہ نکالے جاتے ہیں، تم لوگوں کو جو چیز ان کے پاس نہیں ہوتی وہ مہیا کر دیتے ہو، صلہ رحمی کرتے ہو، لوگوں کا بوجھ اپنے سر پر اٹھا لیتے ہو، مہمان نوازی کرتے ہو اور جھگڑوں میں حق کی مدد کرتے ہو۔ پس میں تمہیں پناہ دیتا ہوں، تم واپس لوٹ جاؤ اور اپنے شہر میں ہی اپنے رب کی عبادت کرو۔ پس سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ واپس آ گئے اور ابن الدغنہ بھی آپ کے ساتھ آیا اور ابن الدغنہ شام کے وقت قریش کے سرداروں کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ بیشک ابوبکر جیسا (عمدہ) آدمی نہ نکلتا ہے اور نہ (قوم سے) نکالا جاتا ہے، کیا تم ایسے شخص کو نکالتے ہو جو لوگوں کو وہ چیزیں مہیا کرتا ہے جو ان کے پاس نہیں ہوتیں اور صلہ رحمی کرتا ہے، دوسروں کا بوجھ اپنے سر لینے والا، مہمان نواز اور حق والے شخص کی مدد کرنے والا ہے۔ قریش نے ابن الدغنہ کی پناہ کو رد نہیں کیا (منظور کر لیا) اور ابن الدغنہ سے کہا کہ تم ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کو سمجھا دو کہ وہ اپنے گھر میں اللہ کی عبادت کریں اور وہیں نمازیں پڑھیں اور قرآت کریں اور اس سے ہمیں اذیت نہ دیں اور نہ اس کو اعلانیہ پیش کریں کیونکہ ہم (اعلانیہ پیش کرنے سے) اپنی عورتوں اور بیٹوں کے بگڑ جانے کا خوف رکھتے ہیں۔ پس ابن الدغنہ نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے یہ سب کہہ دیا، پس سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اسی شرط پر مکہ میں رہے۔ وہ اپنے گھر میں اپنے رب کی عبادت کرتے اور اعلانیہ نماز نہ پڑھتے اور نہ اپنے گھر کے سوا کہیں اور قرآن پڑھتے۔ پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر کے صحن میں ایک مسجد بنائی اور اس میں نماز پڑھتے اور قرآن کی تلاوت کرتے، پس مشرکین کی عورتیں اور ان کے بیٹے (بہت سے لوگ) اکٹھے ہو جاتے اور وہ سب (قرآن سن کر) انھیں دیکھتے اور تعجب کا اظہار کرتے اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ بہت زیادہ رونے والے آدمی تھے، جب وہ قرآن پڑھتے تو اپنے آنسو نہ روک سکتے، اس صورت حال سے مشرکین قریش گھبرا گئے اور ابن الدغنہ کو بلوایا، وہ ان کے پاس آیا تو انھوں نے کہا کہ ہم نے ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کو تیری پناہ میں دینا اس شرط سے قبول کیا تھا کہ وہ اپنے گھر میں رہ کر پروردگار کی عبادت کریں اور اس نے اس شرط کے خلاف کیا اور اس نے اپنے گھر کے صحن میں ایک مسجد بنائی ہے، وہاں اعلانیہ نماز ادا کرتے اور قرآن پڑھتے ہیں اور بیشک ہم اس بات سے ڈرتے ہیں کہ کہیں ہماری عورتیں اور بچے گمراہ نہ ہو جائیں، تم ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کو اس سے روکو، اگر وہ صرف اپنے گھر کے اندر عبادت کرتے ہیں تو کرتے رہیں اور اگر وہ نہ مانیں اور اعلانیہ عبادت کرنے پر ہی ڈٹے رہیں تو تم اپنی پناہ ان سے واپس مانگ لو، ہم تمہاری پناہ توڑنا پسند نہیں کرتے اور یہ بھی نہیں کر سکتے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اعلانیہ عبادت کرنے دیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ابن الدغنہ (یہ سب سن کر) سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ بیشک تم جانتے ہو کہ میں نے جو شرط قریش کے لوگوں سے ٹھہرائی تھی اب تم یا تو اس شرط پر قائم رہو یا میری پناہ واپس کر دو کیونکہ میں یہ پسند نہیں کرتا کہ عرب لوگ یہ خبر سنیں کہ میں نے جس شخص کو امان دی تھی اس کی امان توڑ دی گئی۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تجھے تیری امان واپس کرتا ہوں اور اللہ عزوجل کی پناہ پر راضی ہوں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان دنوں مکہ ہی میں تھے۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے فرمایا: ”مجھے تم لوگوں کی ہجرت کا مقام دکھلایا گیا وہاں کھجور کے درخت ہیں اور دونوں طرف پتھریلے میدان ہیں۔“ یعنی مدینہ کے وہ دونوں پتھریلے میدان جن کو حرتین کہتے ہیں، جن مسلمانوں سے ہو سکا وہ مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے اور بہت سے وہ مسلمان بھی جو حبش کی طرف (اس سے پہلے) ہجرت کر چکے تھے، مدینہ ہی میں لوٹ آئے اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی مدینہ جانے کی تیاری کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”تم ٹھہر جاؤ! مجھے امید ہے کہ مجھے بھی (ہجرت کی) اجازت ملے گی۔“ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ پر میرا باپ صدقے! کیا آپ کو یہ امید ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ پس سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ رک گئے اور اپنی دو اونٹنیوں کو، جو ان کے پاس تھیں، چار ماہ تک کیکر کے پتے کھلاتے رہے (اس سے اونٹ خوب تیز ہو جاتا ہے) عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک دن ہم ٹھیک دوپہر کے وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر میں بیٹھے تھے کہ ایک کہنے والے نے کہا کہ (دیکھو) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے وقت پر آئے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لانے کا وقت نہ تھا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر صدقے اللہ کی قسم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو اس وقت آئے ہیں تو ضرور کوئی بڑا کام ہے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آ پہنچے اور (اندر آنے کی) اجازت مانگی۔ اجازت دی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر داخل ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”اپنے لوگوں سے کہو ذرا باہر جائیں۔“ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! آپ پر میرا باپ صدقے، یہاں صرف آپ کے گھر والے ہی ہیں (یعنی عائشہ اور ان کی والدہ ام رومان رضی اللہ عنہا) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے ہجرت کی اجازت مل گئی ہے۔“ تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! میں آپ کے ساتھ رہوں گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“ تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! ان دونوں اونٹنیوں میں سے کوئی اونٹنی لے لیجئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا (مگر میں) قیمت سے لوں گا۔“ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم نے جلدی سے دونوں کے سفر کا سامان تیار کیا اور ایک چمڑے کے تھیلے میں رکھا تو سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے اپنا کمربند پھاڑا اور اس سے تھیلے کا منہ باندھا، (اسی وجہ سے) ان کا نام ذات النطاقین رکھا گیا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ دونوں (مکہ سے تین میل پر) ثور پہاڑ کی غار میں چلے گئے، پس وہاں یہ لوگ تین راتیں رہے۔ عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہ جو جوان گھبرو بڑا چالاک ہوشیار تھے، رات کو غار میں جا کر ان کے پاس رہتا اور سحر کے وقت واپس چلا آتا اور صبح قریش کے لوگوں کے ساتھ کرتا جیسے رات مکہ ہی میں گزاری ہو اور پھر جتنی باتیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو نقصان پہنچانے کی سنتا، وہ یاد رکھتا اور رات کا اندھیرا ہوتے ہی (غار پر آ کر) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کو سنا دیتا اور عامر بن فہیرہ جو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے غلام تھے، وہ ایک ایک دودھیل بکری گلے میں سے روکے رہتے (اس کا دودھ نہ نچوڑتے) جب ایک گھڑی رات گزر جاتی تو وہ بکری اس غار میں لے کر آتے اور دونوں صاحب تازہ اور گرم گرم دودھ پی کر رات بسر کرتے، یہاں تک کہ عامر بن فہیرہ اندھیرے ہی میں بکریوں کو آواز دینا شروع کرتے، تین راتیں برابر ایسا ہی کرتے رہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے قبیلہ بنی الدیل، جو کہ بنی عبد بن عدی میں سے تھا۔ میں سے ایک شخص کو اجرت پر راہ بتلانے والا (خریت) ٹھہرایا، خریت اس شخص کو کہتے ہیں کہ جو راستہ بتلانے میں ماہر ہو۔ یہ شخص عاص بن وائل سہمی کے خاندان کا حلیف تھا (اس نے ہاتھ ڈبو کر ان کے ساتھ حلف کیا تھا) اور وہ کفار قریش کے دین پر تھا، پس (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ) دونوں نے اس کو امین ٹھہرایا (بھروسہ کیا) اور اپنی اونٹنیاں اس کے حوالے کیں اور اس سے یہ وعدہ ٹھہرایا کہ وہ تین راتوں کے بعد اونٹنیاں لے کر غار ثور پر آ جائے، پس وہ (حسب وعدہ) تیسری (رات کی) صبح کو اونٹنیاں لے کر آیا اور آپ دونوں کے ساتھ عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ اور راستہ بتانے والا شخص روانہ ہوئے اور راستہ بتانے والے نے ساحل سمندر کا راستہ اختیار کیا۔ سیدنا سراقہ بن مالک بن جعشم المدلجی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس قریش کے کافروں کا ایک ایلچی آیا اور انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ میں سے ہر ایک کے قتل کرنے یا پکڑ لینے والے کے لیے دیت (یعنی سو اونٹوں) کا وعدہ کیا تھا۔ ایک بار ایسا ہوا کہ میں بنی مدلج کی ایک مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ اتنے میں ایک شخص انہی کی قوم کا آیا اور ہمارے سامنے کھڑا ہو گیا، ہم لوگ بیٹھے ہوئے تھے تو اس نے کہا کہ اے سراقہ! میں نے ابھی چند آدمیوں کو دیکھا جو ساحل کے راستے سے جا رہے تھے .... میں سمجھتا ہوں کہ وہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور ان کے ساتھی ہیں۔ سراقہ کہتے ہیں کہ میں (دل میں) پہچان گیا کہ یہ وہی لوگ ہوں گے لیکن اس سے میں نے کہا کہ یہ لوگ وہ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھی) نہیں ہیں لیکن تو نے فلاں اور فلاں اور فلاں کو دیکھا ہو گا جو ابھی ابھی ہمارے سامنے گئے ہیں، پھر میں گھڑی بھر اسی مجلس میں ٹھہرا رہا اور پھر اٹھ کر اپنے گھر گیا اور اپنی لونڈی سے کہا کہ تو میرا گھوڑا نکال اور ٹیلے کے پرے جا کر گھوڑے کو روکے رہ، میں نے اپنا نیزہ سنبھالا اور گھر کے پچھلے دروازے سے نیزہ کی بھال (نوک) کو زمین پر لگائے ہوئے (یا بھال سے زمین پر لکیر کرتے ہوئے) باہر نکلا اور نیزہ کا اوپر کا حصہ میں نے جھکا دیا اور اسی طرح اپنے گھوڑے کے پاس آیا اور اس پر سوار ہو گیا اور میں نے اسے دوڑایا تاکہ جلدی پہنچا دے۔ جب میں ان (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں) کے قریب پہنچا تو میرے گھوڑے نے ٹھوکر کھائی اور میں اس پر سے گر پڑا پھر میں اٹھ کر کھڑا ہوا اور ترکش کی طرف ہاتھ بڑھایا اور اس میں سے تیر نکالے اور ان سے فال لی کہ کیا میں انھیں ضرر پہنچا سکوں گا یا نہیں تو وہ بات (میرے خلاف) نکلی جسے میں برا سمجھتا تھا، (لیکن اونٹوں کے لالچ میں) میں پھر اپنے گھوڑے پر سوار ہوا اور فال کے خلاف کیا، میرا گھوڑا مجھے لے کر (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے) قریب پہنچ گیا، یہاں تک کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرآن پڑھنے کی آواز سنی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ادھر ادھر نہ دیکھتے تھے اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ باربار ادھر ادھر دیکھ رہے تھے، اتنے میں میرے گھوڑے کے پاؤں زمین میں دھنس گئے یہاں تک کہ گھٹنوں تک زمین میں چھپ گئے اور میں اس کے اوپر سے گر پڑا، پھر میں نے اسے ڈانٹا تو وہ اٹھا مگر ایسی مشکل سے کہ اپنے ہاتھ زمین سے نہ نکال سکا، پھر جب وہ سیدھا کھڑا ہوا تو اس کے دونوں ہاتھوں (کے زمین کے باہر نکلنے کی وجہ) سے ایک گرد نکلی جو دھویں کی طرح آسمان میں پھیل گئی۔ میں نے پھر تیروں سے فال نکالی تو میری ناپسندیدہ بات نکلی (میرے خلاف نکلی) آخر میں نے انھیں امان (دینے) کے ساتھ پکارا تو وہ رک گئے، پس میں اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر ان کے پاس پہنچا اور جب مجھے ان تک پہنچنے میں یہ مصیبت پیش آئی تو میرے دل میں خیال آیا کہ عنقریب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کام (دین اسلام) غالب آ جائے گا پھر میں نے ان سے کہا کہ بیشک آپ کی قوم نے آپ کے بارہ میں دیت مقرر کی ہے اور میں نے وہ سب خبریں بیان کیں جو لوگ ان کے ساتھ چاہتے تھے اور میں نے ان کے سامنے زادراہ (کھانا) اور (سفر کا) سامان پیش کیا لیکن انھوں نے مجھ سے کچھ نہیں لیا اور نہ مجھ سے مانگا۔ صرف یہ کہا کہ ہمارا حال پوشیدہ رکھنا، پس میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ میرے لئے امن کی ایک تحریر لکھ دیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عامر بن فہیرہ کو حکم دیا، انہوں نے مجھے چمڑے کے ایک ٹکڑے پر لکھ دیا اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہو گئے، (عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زبیر اور مسلمانوں کے کئی سواروں سے ملے جو تاجر تھے اور شام کے ملک سے لوٹے آ رہے تھے، پس سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو سفید کپڑے پہنائے، ادھر مدینہ میں مسلمانوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ سے نکلنے کی خبر سنی تو وہ ہر روز صبح کو (مقام) حرہ تک آتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کرتے رہتے۔ یہاں تک کہ دوپہر کی گرمی (کی شدت) انھیں واپس (ہونے پر مجبور) کر دیتی۔ ایک دن وہ بہت انتظار کے بعد واپس آئے، جب اپنے گھروں میں پہنچ گئے تو ایک یہودی اپنے کسی کام سے اپنے گھروں میں سے ایک گھر کی چھت پر چڑھا تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو سفید پوش (سفید کپڑے پہنے ہوئے) دیکھا کہ سراب ان سے چھپ گیا تھا (جتنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نزدیک ہو رہے ہیں اتنی ہی دور سے پانی کی طرح ریت کا چمکنا کم ہوتا جاتا ہے) پس یہودی اپنے آپ کو بلند آواز سے یہ کہنے سے نہ روک سکا کہ اے گروہ عرب! یہ تمہارا سردار، جس کا تم انتظار کر رہے تھے (آ پہنچا) پس مسلمان اپنے ہتھیاروں کی طرف لپکے اور حرہ میں جا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ داہنی جانب مڑے یہاں تک کہ بنی عمرو بن عوف کے محلہ میں جا کر اترے اور یہ ربیع الاول کا مہینہ اور پیر کا دن تھا۔ پس سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ لوگوں (سے ملنے) کے لیے کھڑے ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش بیٹھے رہے تو انصار کے کچھ لوگوں نے، جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھا تھا وہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ (کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ کر انہی) کے پاس آتے یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر دھوپ آنے لگی تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی چادر سے سایہ کر لیا۔ پھر اس وقت لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان گئے، پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دس سے کچھ اوپر راتوں تک بنی عمرو بن عوف میں رہے اور اس مسجد (قباء) کی بنیاد رکھی جس کی بنیاد تقویٰ (پرہیزگاری) پر رکھی گئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں نماز ادا فرمائی پھر اپنی سواری (اونٹنی) پر سوار ہو کر چلے اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیدل چل رہے تھے یہاں تک کہ مدینہ میں مسجدنبوی کے پاس جا کر (اونٹنی) بیٹھ گئی اور ان دونوں اس جگہ کچھ مسلمان نماز پڑھا کرتے تھے اور وہ زمین دو یتیم لڑکوں سہیل اور سہل کی تھی جو کہ اسعد بن زرارہ کی پرورش میں تھے پس جب اونٹنی بیٹھ گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انشاءاللہ یہی ہمارا (رہنے کا) مقام ہو گا۔“ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں لڑکوں (سہیل اور سہل) کو بلایا اور ان سے اس زمین (کھلیان) کی قیمت پوچھی تاکہ وہاں مسجد بنائی جائے، ان دونوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! ہم یہ زمین آپ کو ہبہ کرتے ہیں (قیمت نہ لیں گے) پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور ہبہ (تحفہ) لینے سے انکار کر دیا بلکہ ان دونوں سے خرید لی پھر وہاں مسجد بنانا شروع کی اور اس کے بنانے کے لیے خود بھی سب لوگوں کے ہمراہ اینٹیں اٹھا اٹھا کر لے جاتے تھے اور فرماتے: ”یہ بوجھ اٹھانا خیبر کا بوجھ اٹھانے سے بہتر ہے بلکہ اس کا اجر و ثواب اللہ کے یہاں باقی رہنے والا ہے اور اس میں بہت طہارت اور پاکی ہے۔“ اور دعا فرماتے: ”اے اللہ! بیشک (بہتر) فائدہ تو آخرت ہی کا ہے، پس تو انصار اور مہاجرین پر رحم فرما۔“
سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ (سیدنا) عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ان کے پیٹ میں تھے کہتی ہیں کہ میں (مکہ سے ہجرت کی نیت سے) اس وقت نکلی جب پورے دنوں کا پیٹ تھا، میں مدینہ میں آ کر قباء میں اتری اور وہاں سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے، میں انھیں لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اپنی گود میں بٹھایا پھر ایک کھجور منگوائی اور اس کو چبایا، پھر اس کو ان کے منہ میں ڈال دیا تو پہلی چیز جو عبداللہ کے پیٹ میں پہنچی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تھوک تھا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور چبا کر ان کے منہ میں ڈالی اور ان کے لیے دعا فرمائی اور برکت کی دعا فرمائی اور یہ (سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ مہاجرین اسلام کے) پہلے بچے تھے جو اسلام میں پیدا ہوئے۔
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غار (ثور) میں تھا کہ میں نے اپنا سر اٹھایا تو (مشرک) لوگوں کے پاؤں دیکھے تو میں نے کہا کہ یا رسول اللہ! اگر ان میں سے کسی نے اپنی نظر نیچے کی تو ہمیں دیکھ لے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابوبکر! خاموش رہ ہم دو آدمی ایسے ہیں جن کے ساتھ تیسرا (ساتھی) اللہ ہے۔“
|