الايمان والتوحيد والدين والقدر ایمان توحید، دین اور تقدیر کا بیان तौहीद पर ईमान, दीन और तक़दीर تقدیر “ तक़दीर के बारे में ”
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک تقدیر پر ایمان نہیں لاتا وہ اچھی ہو یا بری اور جب تک اسے یہ (پختہ) علم نہیں ہو جاتا کہ (اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے مطابق) جس چیز نے اسے لاحق ہونا ہے وہ ٹل نہیں سکتی اور جو ٹل گئی وہ لاحق نہیں ہو سکتی۔“
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس امت کا معاملہ اس وقت تک ہمنوائی، ہم خیالی، (اتحاد اور موافقت) والا رہے گا جب تک یہ لوگ بچوں اور تقدیر (کے مسائل) میں گفتگو نہیں کریں گے۔“
سیدنا ابودردا رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی بندہ اس وقت تک ایمان کی حقیقت کو نہیں پہنچ سکتا، جب تک اسے یہ (پختہ) علم نہ ہو جائے کہ (اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے فیصلے کے مطابق) جس چیز نے اسے لاحق ہونا ہے وہ تجاوز نہیں کر سکتی اور جو چیز تجاوز کر گئی وہ لاحق نہیں ہو سکتی۔“
طاوس یمانی کہتے ہیں: جتنے صحابہ کرام سے میری ملاقات ہوئی وہ کہتے تھے: ہر چیز تقدیر کے ساتھ معلق ہے اور میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر چیز تقدیر کے ساتھ معلق ہے، حتیٰ کہ بے بسی و لاچارگی اور عقل و دانش بھی۔“
سیدنا ابودردا رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر چیز کی ایک حقیقت ہوتی ہے اور آدمی ایمان کی حقیقت کو اس وقت تک نہیں پا سکتا جب تک اسے اس چیز کا (پختہ) علم نہ ہو جائے کہ جو چیز (اللہ کی تقدیر کے فیصلے کے مطابق) اسے لاحق ہونی ہے وہ اس سے تجاوز نہیں کر سکتی اور جس چیز نے اس سے تجاوز کرنا ہے وہ اسے لاحق نہیں ہو سکتی۔“
ابن زرارہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ آیت میری امت کے آخری زمانے کے تقدیر کو جھٹلانے والوں کے بارے میں نازل ہوئی «ذوقوا مس سقر. إنا كل شيء خلقناه بقدر» دوزخ کے آگے لگنے کے مزے چکھو۔ بے شک ہم نے ہر چیز کو ایک مقرر اندازے پر پیدا کیا ہے۔“
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان تین قسم کے اشخاص کی فرضی عبادت نہ قبول ہوتی ہے نہ نفلی: نافرمان و بدسلوک، احسان جتلانے والا اور تقدیر کو جھٹلانے والا۔“
یحییٰ بن یعمر اور حمید بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں: ہم سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو ملے، ہم نے ان کے سامنے تقدیر اور اس کے بارے میں لوگوں کے خیالات کا تذکرہ کیا ...... مزینہ یا جہنیہ قبیلہ کے ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم کس چیز میں عمل کر رہے ہیں؟ آیا اس (تقدیر) کے مطابق فیصلہ کیا جا چکا ہے یا ازسرِنو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس (تقدیر) کے مطابق جس کا فیصلہ پہلے سے ہو چکا ہے۔“ اس نے یا کسی اور آدمی نے کہا: ”تو پھر عمل کی کیا حقیقت رہی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اہل جنت کے لیے جنتیوں کے اعمال آسان کر دئیے جاتے ہیں اور اہل جہنم کے لیے جہنمیوں کے اعمال آسان کر دئیے جاتے ہیں۔“
سیدنا ابودردا رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابی نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم لوگ جو عمل کر رہے ہیں،آیا ان کا (پہلے ہی سے فیصلہ کر کے) ان سے فارغ ہوا جا چکا ہے یا ہم ازسرِنو عمل کر رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ””اس معاملے (کا فیصلہ کر کے) اس سے فراغت حاصل کی جا چکی ہے۔“ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! تو پھر عمل کاہے کا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس آدمی کو جس عمل کے لیے پیدا کیا گیا اسے اسی کے لیے استعمال کیا جائے گا۔“
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا، اسے اپنے داہنے ہاتھ میں پکڑا۔ اور اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں۔ اور دنیا کو، اور دنیا میں کی جانے والی ہر نیکی و بدی اور رطب و یابس کو لکھا اور سب چیزوں کو اپنے پاس لوح محفوظ میں شمار کر لیا پھر فرمایا: اگر چاہتے ہو تو (اس مصداق والی یہ آیت) پڑھ لو: «هذا كتابُنا يَنْطِقُ عليكم بالحق إنا كنا نَسْتَنْسِخُ ما كنتم تعملون» ”یہ ہے ہماری کتاب جو تمہارے بارے میں سچ مچ بول رہی ہے، ہم تمہارے اعمال لکھواتے جاتے ہیں“ (سورۃجاثیہ:29)۔ لکھنا اور نقل کرنا اسی امر میں ہوتا ہے جس سے فارغ ہوا جا چکا ہو۔“
|