الايمان والتوحيد والدين والقدر ایمان توحید، دین اور تقدیر کا بیان तौहीद पर ईमान, दीन और तक़दीर امور کائنات میں صرف اللہ تعالیٰ کی مشیت کار فرما ہے “ कायनात के सारे काम अल्लाह तआला की मर्ज़ी से होते हैं ”
جہینہ قبیلے کی خاتون سیدہ قتیلہ بنت صیفی رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ایک یہودی عالم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: تم لوگ شرک کرتے ہو، کیونکہ تم کہتے ہو: جو اللہ چاہے اور تم چاہو اور تم کعبہ کی قسم اٹھاتے ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بات سن کر فرمایا: ”تم کہا کرو: جو اللہ چاہے اور پھر تم چاہو اور قسم اٹھاتے وقت کہا کرو: رب کعبہ کی قسم۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه الطحاوى فى ”المشكل“: 357/1، والحاكم: 297/4، والبيهقي: 216/3، وأحمد: 371/6-372، والنسائي: 140/2»
سیدہ قتیلہ بنت صفی جہنیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ایک یہودی عالم، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے محمد! تم بہترین لوگ ہو، لیکن کاش کہ تم شرک نہ کرتے ہوتے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سبحان اللہ! (بڑا تعجب ہے) وہ کیسے؟“ اس نے کہا: جب تم قسم اٹھاتے ہو تو کہتے ہو: کعبہ کی قسم۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد فرمایا: ”اس آدمی نے ایک بات کی ہے، اب جو آدمی بھی قسم اٹھائے وہ کعبہ کے رب کی قسم اٹھائے (نہ کہ کعبہ کی)۔“ اس نے پھر کہا: اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! تم بڑے اچھے لوگ ہو، لیکن کہ کاش کہ تم اللہ کے لیے اس کا ہمسر نہ ٹھہراتے ہوتے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سبحان اللہ! وہ کیسے؟ اس نے کہا: تم کہتے ہو کہ جو اللہ چاہے اور تم چاہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دیر خاموش رہے، پھر فرمایا: ”اس آدمی نے ایک بات کی ہے، اگر کوئی آدمی ”ماشاء اللہ“ کہے تو وہ «ثُم شئت» “ کہے (یعنی: جو اللہ چاہے اور پھر تم چاہو)۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه الطحاوي في ”المشكل“ 91/1، وأحمد: 371/6 و 372، وابن سعد: 309/8، والحاكم: 297/4، والنسائي: 140/2»
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے اخیافی بھائی سیدنا طفیل بن سخبرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں خواب میں یہودیوں کے ایک گروہ کے پاس سے گزرا، میں نے ان سے پوچھا کہ تم کون ہو؟ انہوں نے کہا: ہم یہودی ہیں۔ میں نے کہا: تم بہترین قوم ہو، کاش! تم عزیر (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا نہ قرار دیتے۔ یہودیوں نے کہا: تم بھی بہترین لوگ ہو، کاش! تم یہ نہ کہتے کہ جو اللہ چاہے اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) چاہے۔ پھر میں عیسائی گروہ کے پاس سے گزرا۔ میں نے ان سے پوچھا: تم کون ہو؟ انہوں نے کہا: ہم نصرانی ہیں۔ میں نے کہا: تم بڑے اچھے لوگ ہو، کاش! تم عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا نہ قرار دیتے۔ انہوں نے کہا: تم بھی بہترین لوگ ہو، کاش! تم یہ نہ کہتے کہ جو اللہ چاہے اور محمد (علیہ السلام) چاہے۔ جب صبح ہوئی تو میں نے بعض لوگوں کو یہ خواب سنایا اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلا گیا اور آپ کو بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تم نے یہ خواب کسی کو سنایا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ جب لوگوں نے نماز ادا کر لی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خطبہ دیا، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا: ”طفیل نے ایک خواب دیکھا ہے اور تم میں سے بعض لوگوں کو بتا بھی دیا ہے۔ تم لوگ ایک کلمہ کہتے تھے، بس حیا آڑے آتی رہی اور میں تمہیں منع نہ کر سکا۔ (اب کے بعد) ایسے نہ کہا کرو کہ جو اللہ چاہے اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) چاہے۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه أحمد: 72/5»
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ سے کوئی بحث و مباحثہ کیا اور کہا: جو اللہ تعالیٰ چاہیں اور آپ چاہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تو نے مجھے اللہ تعالیٰ کا ہمسر بنا دیا ہے! ایسے نہیں (کہنا چاہئے)، بلکہ یوں کہا جائے کہ جو صرف اللہ تعالیٰ چاہے۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري في ”الأدب المفرد“: 783، وابن ماجه: 2117، والطحاوى فى ”المشكل“: 90/1، والبيهقي: 217/3، وأحمد: 214/1 و 224 و 283 و 347، والطبراني في ”الكبير“: 1/186/3، وأبو نعيم في ”الحلية“: 99/4، والخطيب في ”التاريخ“: 105/8، وابن عساكر: 2/7/12»
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی آدمی قسم اٹھائے تو یہ نہ کہے کہ «ما شاء الله وشئت» (جو اللہ اور آپ چاہیں)، بلکہ اس طرح کہا کرے: «ما شاء الله ثم وشئت» ”جو اللہ تعالیٰ چاہے اور پھر تم چاہو۔““
تخریج الحدیث: «أخرجه ابن ماجه: 650/1، ورواه الامام احمد فى ”مسنده“»
|