الايمان والتوحيد والدين والقدر ایمان توحید، دین اور تقدیر کا بیان तौहीद पर ईमान, दीन और तक़दीर توحید کی برکتیں “ तौहीद : अल्लाह एक और अकेला है यह विश्वास करने की बरकतें ”
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہمیں صادق و مصدوق (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اپنے رب سے روایت کرتے ہوئے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”نیکی کا بدلہ دس گنا یا اس سے بھی زیادہ عطا کرتا ہوں اور برائی کا بدلہ ایک گنا دوں گا یا اسے بھی معاف کر دوں گا۔ (اے میرے بندے!) اگر تو زمین کے لگ بھگ گناہ لے کر مجھے ملے، تو میں تجھے اتنی ہی بخشش عطا کر دوں گا، بشرطیکہ تو نے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہو۔“
تخریج الحدیث: «رواه الحاكم 241/4، و أحمد: 108/5، وابن حبان: 226/225/1، وهو عند مسلم 67/8 بأتم منه»
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالی کہتے ہیں: جس نے ایک نیکی کی، اسے دس گنا یا اس سے بھی زیادہ اجر و ثواب عطا کروں گا اور جس نے ایک برائی کی تو ایک برائی کا ہی بدلہ دوں گا یا وہ بھی معاف کر دوں گا۔ جو زمین کے لگ بھگ گناہ کرنے کے بعد مجھے اس حالت میں ملے کہ اس نے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرا رکھا ہو تو میں اسے اتنی ہی مغفرت عطا کر دوں گا۔ جو ایک بالشت میرے قریب ہو گا میں ایک ہاتھ اس کے قریب ہوں گا، جو ایک ہاتھ میرے قریب ہو گا میں دو ہاتھوں کے پھیلاؤ کے بقدر اس کے قریب ہوں گا اور میری طرف چل کر آئے گا میں اس کی طرف لپک کر جاؤں گا۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم: 67/8، و ابن ماجه: 3821، و أحمد: 53/5، 169، واللفظ له، والطيالسي: 464/62»
سیدنا عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو اللہ تعالیٰ کو اس حال میں ملے کہ اس نے اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہو اور نہ کسی کو ناحق قتل کیا ہو، وہ جنت میں داخل ہو گا۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه أحمد: 152/4، و راوه ابن أبى شيبة فى ”مسنده“ كما فى ”زوائد ابن ماجه“. ق 2/162، للبوصيري، و ابن ماجه: 2618، والحاكم: 351/4»
ابومالک اشجعی اپنے باپ سیدنا طارق بن اشیم رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اللہ تعالیٰ کو یکتا و یگانہ قرار دیا اور اس کے علاوہ (سب معبودانِ باطلہ) کا انکار کر دیا، تو اس کا مال اور خون حرمت والا قرار پائے گا اور اس کا حساب اللہ تعالیٰ پر ہو گا۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم: 40/1، و ابن حبان: 1/ 171/197، و أحمد: 472/3، 394/6، 395»
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں ایک رات کو نکلا، کیا دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے چل رہے تھے، آپ کے ساتھ کوئی آدمی نہیں تھا۔ میں نے سمجھا کہ شائد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو ناپسند کرتے ہیں کہ آپ کے ساتھ کوئی چلے۔ میں نے چاند کے سائے میں چلنا شروع کر دیا۔ آپ میری طرف متوجہ ہوئے، مجھے دیکھا اور پوچھا: ”یہ کون ہے؟“ میں نے کہا: میں ابوذر ہوں، اللہ مجھے آپ پر قربان کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوذر! ادھر آؤ۔“ میں آپ کے پاس گیا اور آپ کے ساتھ کچھ دیر چلتا رہا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: ”قیامت والے روز کثیر مال و دولت والے اجر و ثواب میں کم ہوں گے، مگر جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور اس نے (صدقہ کرتے ہوئے) اسے دائیں بائیں اور آگے پیچھے بکھیر دیا اور اس کے ذریعے نیک اعمال کیے۔“ پھر میں آپ کے ساتھ چلتا رہا، حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہاں بیٹھ جاؤ۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایسی ہموار زمین میں بٹھایا، جس کے ارد گرد پتھر پڑے ہوئے تھے۔ پھر فرمایا: ”میرے واپس آنے تک یہاں بیٹھے رہو۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم حرہ (کالے پتھروں والی زمین) کی طرف چلے گئے اور نظروں سے اوجھل ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں کافی دیر تک ٹھہرے رہے۔ پھر میں نے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے ہوئے آ رہے تھے: ”اگرچہ وہ چوری بھی کرے اور زنا بھی کرے۔“ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس پہنچے تو مجھ سے صبر نہ ہو سکا اور میں نے کہا: اے اللہ کے نبی! مجھے اللہ تعالیٰ آپ پر قربان کرے! آپ حرہ زمین کے پاس کس سے گفتگو کر رہے تھے؟ پھر آپ کو کوئی جواب بھی نہیں دے رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ جبریل تھا، حرہ کے ساتھ ہی وہ مجھے ملا اور کہا: (اے محمد!) اپنی امت کو خوشخبری سنا دو کہ جو اس حال میں مرے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہو، وہ جنت میں داخل ہو گا۔ میں نے کہا: جبریل! اگرچہ اس نے چوری بھی کی ہو اور زنا بھی کیا ہو؟۔ اس نے کہا: جی ہاں۔ میں نے کہا: اگرچہ اس نے چوری بھی کی ہو اور زنا بھی کیا ہو؟۔ میں نے کہا: جی ہاں۔ میں نے کہا: اگرچہ اس نے چوری بھی کی ہو اور زنا بھی کیا ہو؟۔ اس نے کہا: جی ہاں اور اگرچہ اس نے شراب بھی پی ہو۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه البخارى: 79/8 - نهضة، وفى ”الأدب المفرد“: 803، ومسلم: 76/3، و الترمذي 269/3، و ابن حبان فى ”صحيحه“: 170 - الاحسان، و أحمد: 1523/5»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم سے پہلے ایک آدمی تھا، اس نے کوئی نیک عمل نہیں کیا تھا، ماسوائے توحید کے۔ جب اس کی موت کا وقت آیا تو اس نے اپنے کنبے والوں سے کہا: غور سے سنو: اگر میں مر گیا تو مجھے جلا کر کوئلہ بنا دینا، پھر پیس کر نصف خشکی کی ہوا میں اُڑا دینا اور نصف سمندر میں بہا دینا۔ اگر اللہ تعالیٰ مجھ پر قادر آ گیا تو وہ مجھے ایسا شدید عذاب دے گا جو جہانوں میں کسی کو نہ دیا ہو گا۔ جب وہ مر گیا تو انہوں نے ایسے ہی کیا۔ ادھر اللہ تعالیٰ نے خشکی کو حکم دیا، اس نے اس کے ذرات جمع کر دئیے اور سمندر کو حکم دیا، اس نے بھی اس کے اجزا جمع کر دئیے، اچانک (اسے وجود عطا کیا گیا اور) وہ اللہ تعالیٰ کی گرفت میں کھڑا نظر آیا۔ اللہ تعالیٰ نے پوچھا: ابن آدم! تجھے تیرے کیے پر کس چیز نے اکسایا تھا؟ اس نے کہا: اے میرے رب! (میں نے سارا کچھ) تیرے ڈر سے (کروایا)، اور تو جانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اس سے ڈرنے کی وجہ سے معاف کر دیا، حالانکہ اس کا کوئی نیک عمل نہیں تھا، ماسوائے توحید کے۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه أحمد: 304/2، والحديث أخرجه مالك: 1/ 238، و من طريقه البخاري: 7506، و مسلم: 97/8، من طرق اخرى عن ابي هريرة»
|