الايمان والتوحيد والدين والقدر ایمان توحید، دین اور تقدیر کا بیان तौहीद पर ईमान, दीन और तक़दीर اللہ تعالیٰ کو کس نے پیدا کیا؟ اس سوال کا جواب अल्लाह तआला को किस ने पैदा किया ، इसका जवाब
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے پاس شیطان آ کر یہ کہتا ہے: تجھے کس نے پیدا کیا؟ وہ کہتا ہے: اللہ تعالیٰ نے۔ وہ دوبارہ کہے گا: اچھا تو پھر اللہ تعالیٰ کو کس نے پیدا کیا؟ اگر ایسا وسوسہ پیدا ہو جائے تو یہ دعا پڑھنی ہے: «آمنت بالله ورسوله» ”میں اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا“، یہ عمل اس وسوسہ کو ختم کر دے گا۔“
تخریج الحدیث: «رواه أحمد: 257/6»
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کیا ہے؟، یہ کیا ہے؟ لوگ اس قسم کے سوال کرتے رہیں گے، حتی کہ وہ یہ سوال بھی کر دیں گے: اللہ تعالیٰ ہر چیز کا خالق ہے، بھلا اللہ تعالیٰ کو کس نے پیدا کیا؟ اس وقت وہ گمراہ ہو جائیں گے۔“
تخریج الحدیث: «رواه ابن أبى عاصم فى ”السنة“: 1/59، و اخرجه مسلم: 58/1، وكذا أبو عوانة: 1/ 82، دون قوله: فعند ذالك يضلون.»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے ایک آدمی کے پاس شیطان آ کر کہتا ہے: اس چیز کو کس نے پیدا کیا؟، اس چیز کو کس نے پیدا کیا؟، اس چیز کو کس نے پیدا کیا؟، کہتے کہتے بات کو یہاں تک پہنچا دیتا ہے کہ: تیرے رب کو کس نے پیدا کیا؟ جب وہ یہاں تک پہنچا دے تو وہ اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرے اور (ایسی سوچ کو) ختم کر دے۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري: 321/2، ومسلم، وابن السني»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”قریب ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے سوال کرنا شروع کر دیں، (وہ سوال کرتے رہیں)، حتی کہ کہنے والا کہے: مخلوق کو تو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے، مگر اللہ کو کس نے پیدا کیا؟ جب لوگ یہاں تک پہنچ جائیں تو کہنا: «الله أحد، الله الصمد، لم يلد، ولم يولد، ولم يكن له كفوا أحد» ”اللہ ایک ہے، اللہ بے نیاز ہے، نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ کسی نے اس کو جنا اور کوئی بھی اس کا ہمسر نہیں۔“ پھر بائیں طرف تین دفعہ تھوکے اور شیطان سے (اللہ تعالیٰ کی پناہ) طلب کرے۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه أبو داود: 4732، وابن السني: 621»
سلیم بن عامر کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نکل جا اور لوگوں میں اعلان کر دے کہ جس نے گواہی دی کہ اللہ ہی معبود برحق ہے، اس کے لیے جنت واجب ہو جائے گی۔“ وہ کہتے ہیں: میں اعلان کرنے کے لیے نکلا، آگے سے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ٹاکرا ہوا، انہوں نے کہا: ابوبکر کہاں اور کیسے؟ میں نے کہا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ جاؤ اور لوگوں میں اعلان کر دو کہ جس نے گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے، اس کے لیے جنت واجب ہو جائے گی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: (یہ اعلان کیے بغیر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹ جاؤ، مجھے خطرہ ہے کہ لوگ اس (بشارت) پر توکل کر کے عمل کرنا ترک کر دیں گے۔ میں لوٹ آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”واپس کیوں آ گئے ہو؟“ میں نے آپ کو سیدنا عمر والی بات بتلائی۔ آپ نے فرمایا: ”عمر نے سچ کہا۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه أبو يعلي فى ”مسنده“ صـ 35 - مصورة المكتب الأسلامي، ورواه مسلم: 44/1، لكن وقع القصة فيه لابي هريرة مع عمر رضي الله عنهما»
ابوبکر بن ابوموسیٰ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: میں اپنی قوم کے کچھ افراد کے ہمراہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خوش ہو جاؤ اور پچھلوں کو بھی خوشخبری سنا دو کہ جس نے صدق دل سے گواہی دی کہ اللہ ہی معبود برحق ہے تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔“ ہم لوگوں کو خوشخبری سنانے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے نکلے، ہمیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ملے اور (جب ان کو صورتحال کا علم ہوا تو) ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف واپس کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تمہیں کس نے واپس کر دیا؟“ ہم نے کہا: عمر رضی اللہ عنہ نے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”عمر! تم نے ان کو کیوں لوٹا دیا؟“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: (اگر لوگوں کو ایسی خوشخبریاں سنائی جائیں تو وہ توکل کر بیٹھیں گے (اور مزید عمل کرنا ترک کر دیں گے)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر خاموش ہو گئے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه أحمد: 402/4، 411»
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے خلوص دل سے «لا إله إلا الله» کہا،وہ جنت میں داخل ہو گا۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه ابن حبان: 7»
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس آدمی نے گواہی دی کہ اللہ ہی معبود برحق ہے، وہ جنت میں داخل ہو گا۔“
تخریج الحدیث: «أورده فى ”الجامع الصغير“: من رواية البزار عن ابن عمر، وأما الهيثمي فذكره فى ”المجمع“: 16/1، 17، عن عمر رضي الله عنه وقال: رواه ابو يعلى والبزار»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد بیٹھے ہوئے تھے، ہمارے ساتھ سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما بھی تھے، (ہوا یہ کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان سے اٹھ کھڑے ہوئے (اور کہیں چلے گئے) اور واپس آنے میں (خاصی) تاخیر کی۔ ہم ڈر گئے کہ (اللہ نہ کرے) کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم سے پرے جاں بحق نہ کر دیا جائے۔ ہم گھبرا کر اٹھ کھڑے ہوئے اور سب سے پہلے گھبرانے والا میں تھا۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کرنے کے لیے نکل پڑا، حتی کہ میں بنو نجار کے انصار کے باغ کے پاس پہنچ گیا، میں نے دروازے کی تلاش میں چکر لگایا، لیکن مجھے کوئی دروازہ نہ ملا۔ ایک چھوٹی نہر، خارجہ کے کنویں سے باغ میں داخل ہو رہی تھی، میں سمٹ کر اس میں داخل ہو گیا اور (بالآخر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”ابوہریرہ ہو؟“ میں نے کہا: جی ہاں، اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تجھے کیا ہوا (ادھر کیوں آئے ہو)؟“ میں نے کہا: آپ ہمارے پاس بیٹھے تھے، اچانک اٹھ کھڑے ہوئے اور واپس آنے میں دیر کی، ہمیں یہ اندیشہ ہوا کہ کہیں آپ کو ہم سے پرے جاں بحق نہ کر دیا جائے، سو ہم گھبرا گئے اور سب سے پہلے گھبرانے والا میں تھا۔ (میں تلاش کرتے کرتے) اس باغ تک پہنچ گیا اور لومڑی کی طرح سمٹ کر (فلاں سوراخ سے اس میں داخل ہو گیا)۔ بقیہ لوگ میرے پیچھے آ رہے ہیں۔ آپ نے اپنے دو جوتے دے کر مجھے فرمایا: ”ابوہریرہ! یہ میرے جوتے لے کر جاؤ اور اس باغ سے پرے جس آدمی کو ملو، اس حال میں کہ وہ دل کے یقین کے ساتھ گواہی دیتا ہو کہ اللہ ہی معبود برحق ہے، اسے جنت کی خوشخبری دے دو۔“ (ہوا یہ کہ) مجھے سب سے پہلے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ملے، انہوں نے پوچھا: ابوہریرہ! یہ جوتے کیسے ہیں؟ میں نے کہا: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جوتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دے کر بھیجے ہیں کہ میں جس آدمی کو ملوں، اس حال میں کہ وہ دل کے یقین کے ساتھ گواہی دیتا ہو کہ اللہ ہی معبود برحق ہے، اسے جنت کی خوشخبری سنا دوں۔ (یہ بات سن کر) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے میرے سینے میں ضرب لگائی، میں سرین کے بل گر پڑا، انہوں نے کہا: ابوہریرہ! چلو واپس۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف واپس چل پڑا اور غم کی وجہ سے رونے کے قریب تھا، ادھر سے عمر رضی اللہ عنہ میرے پیچھے پیچھے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوہریرہ! کیا ہوا؟“ میں نے کہا: میں سیدنا عمر کو ملا، اسے آپ کا پیغام سنایا، اس نے میرے سینے میں ضرب لگائی، میں سرین کے بل گر پڑا اور کہا کہ چلو واپس۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”عمر! کس چیز نے تجھے ایسا کرنے پر آمادہ کیا ہے؟“ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، کیا واقعی آپ نے ابوہریرہ کو اپنے جوتے دے کر بھیجا کہ وہ جس آدمی کو ملیں، اس حال میں کہ وہ دل کے یقین کے ساتھ یہ شہادت دیتا ہو کہ اللہ ہی معبود برحق ہے، اسے جنت کی خوشخبری سنا دے؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں (میں نے بھیجا)۔“ سیدنا عمر نے کہا: آپ ایسا نہ کریں، مجھے خطرہ ہے کہ لوگ (اس قسم کی بشارتوں پر) توکل کر کے (عمل کرنا ترک کر دیں گے)، آپ لوگوں کو عمل کرنے دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں چھوڑ دو (یعنی یہ حدیث بیان نہ کرو)۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم: 44/1 - 45، وأبو عوانة: 9/1 - 10»
|