سلسله احاديث صحيحه
الايمان والتوحيد والدين والقدر
ایمان توحید، دین اور تقدیر کا بیان
اللہ تعالیٰ کو کس نے پیدا کیا؟ اس سوال کا جواب
حدیث نمبر: 33
- (اذهب بنعليِّ هاتَين؛ فمَن لقِيتَ من وراءِ هذا الحائط يشهدُ أن لا إله إلا الله مُستَيقِناً بها قلبُه؛ فَبَشِّره بالجنّةِ).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد بیٹھے ہوئے تھے، ہمارے ساتھ سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما بھی تھے، (ہوا یہ کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان سے اٹھ کھڑے ہوئے (اور کہیں چلے گئے) اور واپس آنے میں (خاصی) تاخیر کی۔ ہم ڈر گئے کہ (اللہ نہ کرے) کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم سے پرے جاں بحق نہ کر دیا جائے۔ ہم گھبرا کر اٹھ کھڑے ہوئے اور سب سے پہلے گھبرانے والا میں تھا۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کرنے کے لیے نکل پڑا، حتی کہ میں بنو نجار کے انصار کے باغ کے پاس پہنچ گیا، میں نے دروازے کی تلاش میں چکر لگایا، لیکن مجھے کوئی دروازہ نہ ملا۔ ایک چھوٹی نہر، خارجہ کے کنویں سے باغ میں داخل ہو رہی تھی، میں سمٹ کر اس میں داخل ہو گیا اور (بالآخر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”ابوہریرہ ہو؟“ میں نے کہا: جی ہاں، اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تجھے کیا ہوا (ادھر کیوں آئے ہو)؟“ میں نے کہا: آپ ہمارے پاس بیٹھے تھے، اچانک اٹھ کھڑے ہوئے اور واپس آنے میں دیر کی، ہمیں یہ اندیشہ ہوا کہ کہیں آپ کو ہم سے پرے جاں بحق نہ کر دیا جائے، سو ہم گھبرا گئے اور سب سے پہلے گھبرانے والا میں تھا۔ (میں تلاش کرتے کرتے) اس باغ تک پہنچ گیا اور لومڑی کی طرح سمٹ کر (فلاں سوراخ سے اس میں داخل ہو گیا)۔ بقیہ لوگ میرے پیچھے آ رہے ہیں۔ آپ نے اپنے دو جوتے دے کر مجھے فرمایا: ”ابوہریرہ! یہ میرے جوتے لے کر جاؤ اور اس باغ سے پرے جس آدمی کو ملو، اس حال میں کہ وہ دل کے یقین کے ساتھ گواہی دیتا ہو کہ اللہ ہی معبود برحق ہے، اسے جنت کی خوشخبری دے دو۔“ (ہوا یہ کہ) مجھے سب سے پہلے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ملے، انہوں نے پوچھا: ابوہریرہ! یہ جوتے کیسے ہیں؟ میں نے کہا: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جوتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دے کر بھیجے ہیں کہ میں جس آدمی کو ملوں، اس حال میں کہ وہ دل کے یقین کے ساتھ گواہی دیتا ہو کہ اللہ ہی معبود برحق ہے، اسے جنت کی خوشخبری سنا دوں۔ (یہ بات سن کر) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے میرے سینے میں ضرب لگائی، میں سرین کے بل گر پڑا، انہوں نے کہا: ابوہریرہ! چلو واپس۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف واپس چل پڑا اور غم کی وجہ سے رونے کے قریب تھا، ادھر سے عمر رضی اللہ عنہ میرے پیچھے پیچھے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوہریرہ! کیا ہوا؟“ میں نے کہا: میں سیدنا عمر کو ملا، اسے آپ کا پیغام سنایا، اس نے میرے سینے میں ضرب لگائی، میں سرین کے بل گر پڑا اور کہا کہ چلو واپس۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”عمر! کس چیز نے تجھے ایسا کرنے پر آمادہ کیا ہے؟“ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، کیا واقعی آپ نے ابوہریرہ کو اپنے جوتے دے کر بھیجا کہ وہ جس آدمی کو ملیں، اس حال میں کہ وہ دل کے یقین کے ساتھ یہ شہادت دیتا ہو کہ اللہ ہی معبود برحق ہے، اسے جنت کی خوشخبری سنا دے؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں (میں نے بھیجا)۔“ سیدنا عمر نے کہا: آپ ایسا نہ کریں، مجھے خطرہ ہے کہ لوگ (اس قسم کی بشارتوں پر) توکل کر کے (عمل کرنا ترک کر دیں گے)، آپ لوگوں کو عمل کرنے دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں چھوڑ دو (یعنی یہ حدیث بیان نہ کرو)۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم: 44/1 - 45، وأبو عوانة: 9/1 - 10»
سلسلہ احادیث صحیحہ کی حدیث نمبر 33 کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد محفوظ حفظہ الله، فوائد و مسائل، صحیحہ 33
فوائد:
«لا إله إلا الله» جو کہ ایمان کی سب سے افضل شاخ ہے، سے توحیدِ الوہیت ثابت ہوتی ہے، یعنی کائنات میں بسیرا کرنے والوں کا ایک ہی سچا اور برحق معبود ہے، جس کا نام «الله» ہے، اس کے علاوہ جن معبودوں کا تصور دنیا میں پایا جاتا ہے وہ بے بنیاد، بے تأثیر، بے اختیار، بے حقیقت اور باطل ہیں۔
اس حدیث میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت کا بیان ہے، جب ان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے خدشہ لاحق ہوا تو وہ سارے آپ کی تلاش کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔
سلسله احاديث صحيحه شرح از محمد محفوظ احمد، حدیث/صفحہ نمبر: 33