سلسله احاديث صحيحه
الايمان والتوحيد والدين والقدر
ایمان توحید، دین اور تقدیر کا بیان
اللہ تعالیٰ کو کس نے پیدا کیا؟ اس سوال کا جواب
حدیث نمبر: 28
-" يوشك الناس يتساءلون بينهم حتى يقول قائلهم: هذا الله خلق الخلق فمن خلق الله عز وجل؟ فإذا قالوا ذلك، فقولوا: * (الله أحد، الله الصمد، لم يلد، ولم يولد، ولم يكن له كفوا أحد) * ثم ليتفل أحدكم عن يساره ثلاثا، وليستعذ من الشيطان".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”قریب ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے سوال کرنا شروع کر دیں، (وہ سوال کرتے رہیں)، حتی کہ کہنے والا کہے: مخلوق کو تو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے، مگر اللہ کو کس نے پیدا کیا؟ جب لوگ یہاں تک پہنچ جائیں تو کہنا: «الله أحد، الله الصمد، لم يلد، ولم يولد، ولم يكن له كفوا أحد» ”اللہ ایک ہے، اللہ بے نیاز ہے، نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ کسی نے اس کو جنا اور کوئی بھی اس کا ہمسر نہیں۔“ پھر بائیں طرف تین دفعہ تھوکے اور شیطان سے (اللہ تعالیٰ کی پناہ) طلب کرے۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه أبو داود: 4732، وابن السني: 621»
سلسلہ احادیث صحیحہ کی حدیث نمبر 28 کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد محفوظ حفظہ الله، فوائد و مسائل، صحیحہ 28
فوائد:
اللہ تعالی کی ذات ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا، اس کی نہ کوئی ابتدا ہے اور نہ کوئی انتہا۔ اس وسیع و عریض کائنات کی ہر چیز اپنی تخلیق میں اُس کی محتاج ہے اور وہ ہر معاملے میں ہر ایک سے غنی ہے۔
مذکورہ بالا احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ جب کسی مسلمان کے ذہن میں اللہ تعالی کے پیدا ہونے کے بارے میں سوال پیدا ہو، وہ شیطان کے وسوسے کا نتیجہ ہو یا کسی انسان کی ایجاد، اسے جوابی طور پر درج ذیل تین امور میں سے ایک سرانجام دینا چاہیے:
➊ «آمَنْتُ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ» (میں اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا) پڑھنا۔
➋ «اعوذ بالله من الشيطان الرجيم» پڑھنا اور ایسے وسوسوں کو دفع کرنا۔
➌ «اَللَّهُ أَحَدٌ، اللهُ الصَّمَدُ، لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ.» پڑھنا، بائیں جانب تھوکنا اور پھر «اعوذ بالله من الشيطان الرجيم» پڑھنا۔
امام البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: یہ احادیث صحیحہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جس کو شیطان کی طرف سے ”اللہ تعالی کو کس نے پیدا کیا؟“ جیسے سوال کا وسوسہ ہو، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس کا جواب دینے سے پہلو تہی کرے اور ان احادیث میں بیان کیے گئے اذکار کا اہتمام کرے،
ان تین احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ درج ذیل دعا پڑھ لیا کرے (تاکہ تینوں احادیث پر عمل ہو جائے):
«آمَنْتُ بِاللهِ وَرُسُلِهِ، اَللهُ أَحَدٌ، اللهُ الصَّمَدُ، لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ، وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ .»
پھر تین دفعہ بائیں طرف تھوکے، «اعوذ بالله من الشيطان الرجيم» پڑھے اور اس وسوسے کو دفع کر دے۔
میرا خیال ہے کہ جو آدمی پر خلوص انداز میں اللہ تعالی اور رسول اللہ نے ان کی اطاعت کرتے ہوئے یہ امور سرانجام دے گا، وہ اس قسم کے وسوسوں سے محفوظ رہے گا اور شیطان کو دھتکار دیا جائے گا۔
ایسے وسوسے کو دفع کرنے کے لیے نبوی تعلیم اس امر سے زیادہ مفید ہے کہ اس سوال کے جواب میں عقلی دلائل پیش کیے جائیں اور مقابل کے ساتھ مباحثہ و مجادلہ کیا جائے، کیونکہ ایسے معاملات میں بحث و تمحیص سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ لیکن افسوس ہے کہ اکثر مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان تعلیمات سے غافل ہیں۔
مسلمانو! منتبہ ہو جاؤ، اپنے نبی کی سنت کو پہنچانو اور اس پر عمل کرو، کیونکہ اسی میں تمہاری شفا اور عزت مخفی ہے۔ [صحيحه: 118]
ان احادیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ضروری نہیں کہ سائل کے ہر سوال کا جواب دیا جائے، بلکہ مشتبہ اور پیچیدہ امور کا جواب دینے کے بجائے احکام شریعت پر عمل کیا جائے۔
سلسله احاديث صحيحه شرح از محمد محفوظ احمد، حدیث/صفحہ نمبر: 28