كتاب الزهد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: زہد، ورع، تقوی اور پرہیز گاری 38. باب مَا جَاءَ فِي مَعِيشَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَهْلِهِ باب: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم اور ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کی معاشی زندگی کا بیان۔
مسروق کہتے ہیں کہ میں ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے ہمارے لیے کھانا طلب کیا اور کہا کہ میں کسی کھانے سے سیر نہیں ہوتی ہوں کہ رونا چاہتی ہوں پھر رونے لگتی ہوں۔ میں نے سوال کیا: ایسا کیوں؟ عائشہ رضی الله عنہا نے کہا: میں اس حالت کو یاد کرتی ہوں جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا، اللہ کی قسم! آپ روٹی اور گوشت سے ایک دن میں دو بار کبھی سیر نہیں ہوئے۔
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف، وانظر مایأتي بعدہ (تحفة الأشراف: 17627) (ضعیف) (سند میں مجالد بن سعید ضعیف ہیں، اگلی روایت صحیح ہے جس کا سیاق اس حدیث کے سیاق سے قدرے مختلف ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، التعليق الرغيب (4 / 109)، مختصر الشمائل (128)
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو روز متواتر جو کی روٹی کبھی سیر ہو کر نہیں کھائی یہاں تک کہ آپ وفات پا گئے۔
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔ تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الزہد 1 (2970)، سنن ابن ماجہ/الأطعمة 49 (3346) (تحفة الأشراف: 16014) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح مختصر الشمائل (123)
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اہل خانہ نے مسلسل تین دن تک گیہوں کی روٹی سیر ہو کر نہیں کھائی یہاں تک کہ آپ رحلت فرما گئے۔
یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأطعمة 23 (5414) نحوہ)، صحیح مسلم/الزہد 1 (2976)، سنن ابن ماجہ/الأطعمة 48 (3343) (تحفة الأشراف: 13440) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3343)
ابوامامہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے جو کی روٹی (اہل خانہ کی) ضرورت سے زیادہ نہیں ہوتی تھی ۱؎۔
۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ۲- یحییٰ بن ابی بکیر کوفی ہیں، ابوبکیر جو یحییٰ کے والد ہیں سفیان ثوری نے ان کی حدیث روایت کی ہے، ۳- یحییٰ بن عبداللہ بن بکیر مصری ہیں اور لیث کے شاگرد ہیں۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 4870)، وانظر مسند احمد (5/253) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی گھر میں آٹے کی مقدار اتنی کم ہوتی تھی کہ اس سے بمشکل آپ کے گھر والوں کی ضرورت پوری ہوتی، کیونکہ یہ لوگ دوسروں کو ہمیشہ اپنے پر ترجیح دیتے تھے اور «ويؤثرون على أنفسهم ولو كان بهم خصاصة» (الحشر: ۹) کا کامل نمونہ تھے، بقدر کفاف زندگی گزارنا پسند کرتے تھے، اسی لیے جو کی روٹی بھی ضرورت سے زیادہ نہیں ہوتی تھی۔ قال الشيخ الألباني: صحيح مختصر الشمائل (124)، التعليق الرغيب (4 / 110)
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے گھر والے مسلسل کئی راتیں خالی پیٹ گزار دیتے، اور رات کا کھانا نہیں پاتے تھے۔ اور ان کی اکثر خوراک جو کی روٹی ہوتی تھی۔
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الأطعمة 49 (3347) (تحفة الأشراف: 6233) (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (3347)
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا کی «اللهم اجعل رزق آل محمد قوتا» ”اے اللہ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں کو صرف اتنی روزی دے جس سے ان کے جسم کا رشتہ برقرار رہ سکے“ ۱؎۔
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الرقاق 17 (6460)، صحیح مسلم/الزکاة 43 (1055)، والزہد 1 (1055/18)، سنن ابن ماجہ/الزہد 9 (4136) (تحفة الأشراف: 14898)، و مسند احمد (2/232، 446، 481) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسی زندگی گزارنا پسند کرتے تھے جو دنیوی آلائشوں اور آرام و آسائش سے پاک ہو، کیونکہ بعثت نبوی کا مقصد ہی یہ تھا کہ وہ لوگوں کو دنیا کے ہنگاموں، مشاغل اور زیب و زینت سے ہٹا کر آخرت کی طرف متوجہ کریں، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اور اپنے گھر والوں کے حق میں مذکورہ دعا فرمائی، آپ کی اس دعا سے علماء اور داعیان اسلام کو نصیحت حاصل کرنا چاہیئے کہ ہماری زندگی سادگی کا نمونہ اور دنیاوی تکلفات سے پاک ہو، اگر اللہ ہمیں مال و دولت سے نوازے تو مالدار صحابہ کرام کا کردار ہمارے پیش نظر ہونا چاہیئے تاہم مال و دولت کا زیادہ سے زیادہ حصول ہماری زندگی کا مقصد نہیں ہونا چاہیئے اور نہ اس کے لیے ہر قسم کا حربہ و ہتھکنڈہ استعمال کرنا چاہیئے خواہ اس حربے اور ہتھکنڈے کا استعمال کسی دینی کام کے آڑ میں ہی کیوں نہ ہو۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (4136)
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آنے والے کل کے لیے کچھ نہیں رکھ چھوڑتے تھے۔
۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- یہ حدیث «عن جعفر بن سليمان عن ثابت عن النبي صلى الله عليه وسلم» کی سند سے مرسلا بھی مروی ہے۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 273) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح مختصر الشمائل (304)، التعليق الرغيب (2 / 42)
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چوکی (یا میز) پر کھانا کبھی نہیں کھایا اور نہ ہی کبھی باریک آٹے کی روٹی کھائی یہاں تک کہ دنیا سے کوچ کر گئے۔
یہ حدیث سعید بن ابی عروبہ کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 1788 (تحفة الأشراف: 1174) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3292 و 3293)
سہل بن سعد رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ان سے پوچھا گیا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی میدہ کی روٹی کھائی ہے؟ سہل نے جواب دیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میدہ کی روٹی دیکھی بھی نہیں یہاں تک کہ رحلت فرما گئے۔ پھر ان سے پوچھا گیا: کیا آپ لوگوں کے پاس عہد نبوی میں چھلنی تھی؟ کہا ہم لوگوں کے پاس چھلنی نہیں تھی۔ پھر ان سے پوچھا گیا کہ آپ لوگ جو کے آٹے کو کیسے صاف کرتے تھے؟ تو کہا: پہلے ہم اس میں پھونکیں مارتے تھے تو جو اڑنا ہوتا وہ اڑ جاتا تھا پھر ہم اس میں پانی ڈال کر اسے گوندھ لیتے تھے۔
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس حدیث کو مالک بن انس نے بھی ابوحازم سے روایت کیا ہے۔ تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأطعمة 23 (5413) (وانظر أیضا: 5410)، سنن ابن ماجہ/الأطعمة 44 (3335) (تحفة الأشراف: 4704)، و مسند احمد (5/332) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3335)
|