كتاب الزهد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: زہد، ورع، تقوی اور پرہیز گاری 13. باب مَا جَاءَ فِي هَوَانِ الدُّنْيَا عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ باب: اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کی حقارت کا بیان۔
سہل بن سعد رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کی وقعت اگر ایک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو وہ کسی کافر کو اس میں سے ایک گھونٹ پانی بھی نہ پلاتا“ ۱؎۔
۱- یہ حدیث اس سند سے صحیح غریب ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔ تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الزہد 3 (4110) (تحفة الأشراف: 4699) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں دنیا کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے بلکہ یہ حقیر سے حقیر چیز ہے، اس کی حقارت کی دلیل یہ ہے کہ اگر اللہ کی نگاہ میں اس کی کوئی قدر و قیمت ہوتی تو اسے صرف اپنے محبوب بندوں کو نوازتا، جب کہ حال یہ ہے کہ اسے اپنے دشمنوں یعنی کفار و مشرکین کو دیتا ہے، یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ دینے والا اپنے دشمن کو وہ چیز دے جو اس کے نزدیک قدر و قیمت والی ہو، کافروں کو جنت کی ایک ادنی نعمت سے اسی لیے محروم رکھا گیا ہے کیونکہ جنت اللہ کے محبوب بندوں کے لیے ہے، نہ کہ اس کے دشمنوں کے لیے، معلوم ہوا کہ اللہ کے نزدیک دنیا اور اس کے مال و اسباب کی قطعاً کوئی اہمیت نہیں ہے، لہٰذا اہل ایمان کے نزدیک بھی اس کی زیادہ اہمیت نہیں ہونی چاہیئے بلکہ اسے آخرت کی زندگی سنوارنے کا ایک ذریعہ سمجھنا چاہیئے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (940)
مستورد بن شداد رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں بھی ان سواروں کے ساتھ تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک بکری کے مرے ہوئے بچے کے پاس کھڑے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم لوگ اسے دیکھ رہے ہو کہ جب یہ اس کے مالکوں کے نزدیک حقیر اور بے قیمت ہو گیا“ تو انہوں نے اسے پھینک دیا، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس کی بے قیمت ہونے کی بنیاد ہی پر لوگوں نے اسے پھینک دیا ہے، آپ نے فرمایا: ”دنیا اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ حقیر اور بے وقعت ہے جتنا یہ اپنے لوگوں کے نزدیک حقیر اور بے وقعت ہے“۔
۱- مستورد رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں جابر اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الزہد 3 (4111) (تحفة الأشراف: 11258) وانظر مسند احمد (4/229، 230) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (4111)
|