كتاب الزهد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: زہد، ورع، تقوی اور پرہیز گاری 35. باب مَا جَاءَ فِي الْكَفَافِ وَالصَّبْرِ عَلَيْهِ باب: بقدر کفاف (روزمرہ کے خرچ) پر صبر کی ترغیب۔
ابوامامہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے دوستوں میں میرے نزدیک سب سے زیادہ رشک کرنے کے لائق وہ مومن ہے جو مال اور اولاد سے ہلکا پھلکا ہو، نماز میں جسے راحت ملتی ہو، اپنے رب کی عبادت اچھے ڈھنگ سے کرنے والا ہو، اور خلوت میں بھی اس کا مطیع و فرماں بردار رہا ہو، لوگوں کے درمیان ایسی گمنامی کی زندگی گزار رہا ہو کہ انگلیوں سے اس کی طرف اشارہ نہیں کیا جاتا، اور اس کا رزق بقدر «کفاف» ہو پھر بھی اس پر صابر رہے، پھر آپ نے اپنا ہاتھ زمین پر مارا اور فرمایا: ”جلدی اس کی موت آئے تاکہ اس پر رونے والیاں تھوڑی ہوں اور اس کی میراث کم ہو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 4909) (ضعیف) (یہ سند معروف ترین ضعیف سندوں میں سے ہے، عبیداللہ بن زحرعن علی بن یزید عن القاسم سب ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو: تراجع الالبانی 364)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (5189 / التحقيق الثاني) // ضعيف الجامع الصغير (1397) //
اسی سند سے مزید روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے رب نے مجھ پر اس بات کو پیش کیا کہ مکہ کی کنکریلی زمین کو سونا بنا دے لیکن میں نے کہا: نہیں اے میرے رب! میں تو چاہتا ہوں کہ ایک دن آسودہ رہوں اور ایک دن بھوکا“، یا فرمایا: ”تین دن“، یا اسی کے مانند کچھ اور فرمایا: ”پس جب میں بھوکا رہوں گا تو تیرے لیے عاجزی اور مسکنت ظاہر کروں گا اور تجھے یاد کروں گا، اور جب آسودہ رہوں گا تو تیرا شکر ادا کروں گا اور تیری حمد بجا لاؤں گا“۔
۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں فضالہ بن عبید سے بھی روایت ہے، اور قاسم یہ قاسم بن عبدالرحمٰن ہیں جن کی کنیت ابوعبدالرحمٰن ہے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کی کنیت ابوعبدالملک ہے، یہ عبدالرحمٰن بن خالد بن یزید بن معاویہ کے آزاد کردہ غلام ہیں، شامی ہیں، ثقہ ہیں، ۳- علی بن یزید حدیث بیان کرنے میں ضعیف ہیں، ان کی کنیت ابوعبدالملک ہے۔ تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (ضعیف)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (5189 / التحقيق الثاني) // ضعيف الجامع الصغير (1397) //
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کامیاب ہوا وہ شخص جس نے اسلام قبول کیا اور بقدر «كفاف» اسے روزی حاصل ہوئی اور اللہ نے اسے (اپنے دئیے ہوئے پر) «قانع» بنا دیا“ ۱؎۔
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الزکاة 43 (1054)، سنن ابن ماجہ/الزہد 9 (4138) (تحفة الأشراف: 8848)، و مسند احمد (2/168، 173) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: آخرت کی کامیابی کا دارومدار صرف اور صرف اسلام ہے، اگر بدقسمتی سے کسی کا دامن دولت اسلام سے خالی رہا تو دنیا بھر کے خزانے اسے اخروی کامیابی سے ہمکنار نہیں کر سکتے، اسی طرح بقدر ضرورت اور برابر سرابر والی زندگی میں جو امن و سکون میسر ہے وہ زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کی خواہش رکھنے والے انسان کو کبھی حاصل نہیں ہو سکتی، گویا بقدر کفاف روزی کے ساتھ قناعت و استغنا کامل جانا امن و سکون کی ضمانت ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (4138)
فضالہ بن عبید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”مبارکبادی ہو اس شخص کو جسے اسلام کی ہدایت ملی اور اسے بقدر «کفاف» روزی ملی پھر وہ اسی پر قانع و مطمئن رہا“۔
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ابوہانی کا نام حمید بن ہانی ہے۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف: 11033) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، التعليق الرغيب (2 / 11)، الصحيحة (1506)
|