(مرفوع) حدثنا عباس بن محمد الدوري، حدثنا يحيى بن ابي بكير، حدثنا حريز بن عثمان، عن سليم بن عامر، قال: سمعت ابا امامة يقول: " ما كان يفضل عن اهل بيت النبي صلى الله عليه وسلم خبز الشعير " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه، ويحيى بن ابي بكير هذا كوفي، وابو بكير والد يحيى روى له سفيان الثوري، ويحيى بن عبد الله بن بكير مصري صاحب الليث.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا حَرِيزُ بْنُ عُثْمَانَ، عَنْ سُلَيْمِ بْنِ عَامِرٍ، قَال: سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ يَقُولُ: " مَا كَانَ يَفْضُلُ عَنْ أَهْلِ بَيْتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خُبْزُ الشَّعِيرِ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَيَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ هَذَا كُوفِيٌّ، وَأَبُو بُكَيْرٍ وَالِدُ يَحْيَى رَوَى لَهُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَيَحْيَى بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُكَيْرٍ مِصْرِيٌّ صَاحِبُ اللَّيْثِ.
ابوامامہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے جو کی روٹی (اہل خانہ کی) ضرورت سے زیادہ نہیں ہوتی تھی ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ۲- یحییٰ بن ابی بکیر کوفی ہیں، ابوبکیر جو یحییٰ کے والد ہیں سفیان ثوری نے ان کی حدیث روایت کی ہے، ۳- یحییٰ بن عبداللہ بن بکیر مصری ہیں اور لیث کے شاگرد ہیں۔
وضاحت: ۱؎: یعنی گھر میں آٹے کی مقدار اتنی کم ہوتی تھی کہ اس سے بمشکل آپ کے گھر والوں کی ضرورت پوری ہوتی، کیونکہ یہ لوگ دوسروں کو ہمیشہ اپنے پر ترجیح دیتے تھے اور «ويؤثرون على أنفسهم ولو كان بهم خصاصة»(الحشر: ۹) کا کامل نمونہ تھے، بقدر کفاف زندگی گزارنا پسند کرتے تھے، اسی لیے جو کی روٹی بھی ضرورت سے زیادہ نہیں ہوتی تھی۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2359
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یعنی گھرمیں آٹے کی مقداراتنی کم ہوتی تھی کہ اس سے بمشکل آپ کے گھروالوں کی ضرورت پوری ہوتی، کیونکہ یہ لوگ دوسروں کوہمیشہ اپنے پرترجیح دیتے تھے اور ﴿وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ﴾(الحشر: 9) کا کامل نمونہ تھے، بقدرکفاف زندگی گزارنا پسندکرتے تھے، اسی لیے جو کی روٹی بھی ضرورت سے زیادہ نہیں ہوتی تھی۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2359