كتاب الزهد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: زہد، ورع، تقوی اور پرہیز گاری 17. باب مَا جَاءَ مَثَلُ الدُّنْيَا مَثَلُ أَرْبَعَةِ نَفَرٍ باب: دنیا کی مثال چار قسم کے لوگوں کی مانند ہے۔
ابوکبشہ انماری رضی الله عنہ کا بیان ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”میں تین باتوں پر قسم کھاتا ہوں اور میں تم لوگوں سے ایک بات بیان کر رہا ہوں جسے یاد رکھو“، ”کسی بندے کے مال میں صدقہ دینے سے کوئی کمی نہیں آتی (یہ پہلی بات ہے)، اور کسی بندے پر کسی قسم کا ظلم ہو اور اس پر وہ صبر کرے تو اللہ اس کی عزت کو بڑھا دیتا ہے (دوسری بات ہے)، اور اگر کوئی شخص پہنے کے لیے سوال کا دروازہ کھولتا ہے تو اللہ اس کے لیے فقر و محتاجی کا دروازہ کھول دیتا ہے“۔ (یا اسی کے ہم معنی آپ نے کوئی اور کلمہ کہا) (یہ تیسری بات ہے) اور تم لوگوں سے ایک اور بات بیان کر رہا ہوں اسے بھی اچھی طرح یاد رکھو: ”یہ دنیا چار قسم کے لوگوں کے لیے ہے: ایک بندہ وہ ہے جسے اللہ تبارک و تعالیٰ نے مال اور علم کی دولت دی، وہ اپنے رب سے اس مال کے کمانے اور خرچ کرنے میں ڈرتا ہے اور اس مال کے ذریعے صلہ رحمی کرتا ہے ۱؎ اور اس میں سے اللہ کے حقوق کی ادائیگی کا بھی خیال رکھتا ہے ۲؎ ایسے بندے کا درجہ سب درجوں سے بہتر ہے۔ اور ایک وہ بندہ ہے جسے اللہ نے علم دیا، لیکن مال و دولت سے اسے محروم رکھا پھر بھی اس کی نیت سچی ہے اور وہ کہتا ہے کہ کاش میرے پاس بھی مال ہوتا تو میں اس شخص کی طرح عمل کرتا لہٰذا اسے اس کی سچی نیت کی وجہ سے پہلے شخص کی طرح اجر برابر ملے گا، اور ایک وہ بندہ ہے جسے اللہ نے مال و دولت سے نوازا لیکن اسی علم سے محروم رکھا وہ اپنے مال میں غلط روش اختیار کرتا ہے، اس مال کے کمانے اور خرچ کرنے میں اپنے رب سے نہیں ڈرتا ہے، نہ ہی صلہ رحمی کرتا ہے اور نہ ہی اس مال میں اللہ کے حق کا خیال رکھتا ہے تو ایسے شخص کا درجہ سب درجوں سے بدتر ہے، اور ایک وہ بندہ ہے جسے اللہ نے مال و دولت اور علم دونوں سے محروم رکھا، وہ کہتا ہے کاش میرے پاس مال ہوتا تو فلاں کی طرح میں بھی عمل کرتا (یعنی: برے کاموں میں مال خرچ کرتا) تو اس کی نیت کا وبال اسے ملے گا اور دونوں کا عذاب اور بار گناہ برابر ہو گا“۔
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف، وأخرج ابن ماجہ نحوہ في الزہد 26 (4228) (تحفة الأشراف: 12145) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی اسے اپنے رشتہ داروں میں خرچ کرتا ہے اور اعزہ و اقرباء کا خاص خیال رکھتا ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (4228)
|