كتاب قطع السارق کتاب: چور کا ہاتھ کاٹنے سے متعلق احکام و مسائل 18. بَابُ: تَعْلِيقِ يَدِ السَّارِقِ فِي عُنُقِهِ باب: ہاتھ کاٹ کر چور کی گردن میں لٹکا دینے کا بیان۔
ابن محیریز کہتے ہیں کہ میں نے فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے چور کا ہاتھ کاٹ کر اس کی گردن میں لٹکانے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: یہ سنت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چور کا ہاتھ کاٹا اور اسے اس کی گردن میں لٹکا دیا۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الحدود 21 (4411)، سنن الترمذی/الحدود 17 (1447)، سنن ابن ماجہ/الحدود23(2587)، (تحفة الأشراف: 11029) مسند احمد (6/19) (ضعیف) (اس کے راوی ’’حجاج بن ارطاة‘‘ ضعیف اور ’’عبدالرحمن بن محیریز‘‘ مجہول ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف
عبدالرحمٰن بن محیریز کہتے ہیں کہ میں نے فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا چور کا ہاتھ کاٹ کر اس کی گردن میں لٹکانا سنت ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک چور لایا گیا، تو آپ نے اس کا ہاتھ کاٹا اور اس کی گردن میں لٹکا دیا۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: حجاج بن ارطاۃ ضعیف ہیں، ان کی حدیث لائق حجت نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (ضعیف)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف
عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب حد قائم ہو جائے تو چوری کرنے والے پر تاوان لازم نہ ہو گا“ ۱؎۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: یہ مرسل (یعنی منقطع) ہے اور صحیح نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 9725) (ضعیف) (اس کی سند میں مسور اور عبدالرحمن بن عوف کے درمیان انقطاع ہے۔)»
وضاحت: ۱؎: امام ابوحنیفہ کا قول اسی حدیث کے مطابق ہے، لیکن یہ حدیث منقطع ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے، جمہور کے نزدیک حد قائم ہونے کے باوجود مسروقہ مال کا تاوان لیا جائے گا کیونکہ ایک مسلم کا مال دوسرے مسلم پر بغیر جائز اسباب کے حرام ہے (جائز اسباب یعنی: خرید، ہدیہ و ہبہ، وراثت، مشاہرہ وغیرہ) اس لیے چور سے لے کر چوری کا مال صاحب مال کو واپس کرنا ضروری ہے، اگر موجود ہے تو ٹھیک ہے، ورنہ تاوان لیا جائے گا۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: سب سے بہتر عمل کون سا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الإیمان 18 (26)، الحج4(1519)، صحیح مسلم/الإیمان 36 (83)، (تحفة الأشراف: 13101)، مسند احمد (2/264، 287، 348، 388، 531)، سنن الدارمی/الجہاد 4 (2438) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ایمان کے لغوی معنیٰ تصدیق کے ہیں اور شرع کی اصطلاح میں ایمان یہ ہے: زبان سے اقرار، دل سے تصدیق اور اعضاء و جوارح سے عمل کرنا، نیز ایمان کا طاعت و فرمانبرداری سے بڑھنا اور عصیان و نافرمانی سے گھٹنا سلف کا عقیدہ ہے۔ اور ایمان سب سے بہتر عمل اس لیے ہے کہ تمام اچھے اور نیک اعمال و افعال کا دارومدار ایمان ہی پر ہے، اگر ایمان نہیں ہے تو کوئی بھی نیک عمل مقبول نہیں ہو گا، بہت سی احادیث میں مختلف اعمال کو «أفضل عمل» ”سب سے اچھا کام) بتایا گیا ہے، تو (ایمان کے بعد) پوچھنے والے یا پوچھے جانے کے وقت کے خاص حالات اور پس منظر کے لحاظ سے جواب دیا گیا ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|