كتاب قطع السارق کتاب: چور کا ہاتھ کاٹنے سے متعلق احکام و مسائل 5. بَابُ: مَا يَكُونُ حِرْزًا وَمَا لاَ يَكُونُ باب: کون سا سامان محفوظ سمجھا جائے اور کون سا نہ سمجھا جائے؟
صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے بیت اللہ کا طواف کیا، پھر نماز پڑھی، پھر اپنی چادر لپیٹ کر سر کے نیچے رکھی اور سو گئے، ایک چور آیا اور ان کے سر کے نیچے سے چادر کھینچی، انہوں نے اسے پکڑ لیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آئے اور بولے: اس نے میری چادر چرائی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: کیا تم نے ان کی چادر چرائی ہے؟ وہ بولا: ہاں، آپ نے (دو آدمیوں سے) فرمایا: اسے لے جاؤ اور اس کا ہاتھ کاٹ دو۔ صفوان رضی اللہ عنہ نے کہا: میرا مقصد یہ نہ تھا کہ میری چادر کے سلسلے میں اس کا ہاتھ کاٹا جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”یہ کام پہلے ہی کیوں نہ کر لیا“۔ اشعث نے عبدالملک کے برخلاف (ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث سے) اس کو روایت کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 4882 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ صفوان رضی اللہ عنہ مسجد میں سو رہے تھے، ان کی چادر ان کے سر کے نیچے تھی، کسی نے اسے چرایا تو وہ اٹھ گئے، اتنے میں آدمی جا چکا تھا، انہوں نے اسے پا لیا اور اسے پکڑ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے۔ آپ نے اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا، صفوان رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! میری چادر اس قیمت کی نہ تھی کہ کسی شخص کا ہاتھ کاٹا جائے ۱؎۔ آپ نے فرمایا: ”تو ہمارے پاس لانے سے پہلے ہی ایسا کیوں نہ کر لیا“۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: اشعث ضعیف ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 5985) (صحیح) (اشعث ضعیف راوی ہیں، لیکن پچھلی سند سے تقویت پاکر یہ روایت صحیح ہے)»
وضاحت: ۱؎: یہ ان کا اپنا ظن و گمان تھا ورنہ چادر کی قیمت چوری کے نصاب کی حد سے متجاوز تھی۔ قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں مسجد میں اپنی ایک چادر پر سو رہا تھا، جس کی قیمت تیس درہم تھی، اتنے میں ایک شخص آیا اور مجھ سے چادر اچک لے گیا، پھر وہ آدمی پکڑا گیا اور اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا، آپ نے حکم دیا کہ اس کا ہاتھ کاٹا جائے، تو میں نے آپ کے پاس آ کر عرض کیا: کیا آپ اس کا ہاتھ صرف تیس درہم کی وجہ سے کاٹ دیں گے؟ میں چادر اس کے ہاتھ بیچ دیتا ہوں اور اس کی قیمت ادھار کر لیتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسا تم نے اسے ہمارے پاس لانے سے پہلے کیوں نہیں کیا“۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 4882 (منکر) (اس کا یہ ٹکڑا ”أبیعہ … منکر ہے، اور نکارت کے سبب حمید ہیں جو لین الحدیث ہیں باقی مشمولات صحیح ہیں)»
قال الشيخ الألباني: منكر
صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک چادر ان کے سر کے نیچے سے چوری ہو گئی اور وہ مسجد نبوی میں سو رہے تھے، انہوں نے چور پکڑ لیا اور اسے لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، آپ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا تو صفوان رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا آپ اس کا ہاتھ کاٹیں گے؟ آپ نے فرمایا: ”تو پھر اسے میرے پاس لانے سے پہلے ہی کیوں نہ چھوڑ دیا“۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 4882 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حدود کو میرے پاس آنے سے پہلے معاف کر دیا کرو، کیونکہ جس حد کا مقدمہ میرے پاس آیا، اس میں حد لازم ہو گئی“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الحدود 5 (4386)، (تحفة الأشراف: 8747) (حسن)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حدود کو آپس ہی میں معاف کر دو، جب حد کی کوئی چیز میرے پاس پہنچ گئی تو وہ واجب ہو گئی“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (حسن)»
وضاحت: ۱؎: یعنی اسے معاف نہیں کیا جا سکتا۔ قال الشيخ الألباني: حسن
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ قبیلہ مخزوم کی ایک عورت لوگوں کا سامان مانگ لیتی تھی، پھر مکر جاتی تھی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الحدود 15 (4395)، (تحفة الأشراف: 7549) مسند احمد (2/151) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: عاریت (روزمرہ برتے جانے والے سامانوں کی منگنی) کے انکار کر دینے پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مخزومیہ عورت کا ہاتھ کاٹ دیا، اس سے بعض علماء عاریت کے انکار کو بھی چوری مانتے ہیں۔ (اس حدیث کی بعض روایات کے الفاظ سے واضح ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فعل کو چوری سے تعبیر فرمایا) اور بعض علماء کہتے ہیں کہ عاریت کے انکار پر آپ نے اس لیے ہاتھ کاٹا کہ ایسا نہ ہو کہ عاریت دینے کا چلن ہی سماج اور معاشرے سے ختم ہو جائے تو لوگ پریشانی میں مبتلا ہو جائیں۔ بہرحال عاریت کے انکار پر ہاتھ کاٹنا ثابت ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ قبیلہ مخزوم کی ایک عورت پڑوسی عورتوں (کی گواہیوں) کے ذریعہ سامان مانگتی، پھر مکر جاتی تھی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک عورت لوگوں کے زیورات مانگ لیتی پھر اسے رکھ لیتی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس عورت کو اللہ اور اس کے رسول سے توبہ کرنی چاہیئے، اور جو کچھ لیتی ہے اسے لوگوں کو لوٹا دینا چاہیئے“، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلال کھڑے ہو اور اس کا ہاتھ پکڑ کر کاٹ دو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 8079، 19500) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
نافع کہتے ہیں کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں زیورات مانگ لیتی تھی، چنانچہ اس نے زیور مانگا اور اسے اکٹھا کر کے رکھ لیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس عورت کو توبہ کرنی چاہیئے اور جو کچھ اس کے پاس ہے، اسے ادا کرنا چاہیئے، کئی بار (کہا) لیکن اس نے ایسا نہیں کیا تو آپ نے حکم دیا اور اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا“۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بنی مخزوم کی ایک عورت نے چوری کی، چنانچہ اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا، اس نے ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی پناہ لی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر فاطمہ بنت محمد بھی ہوتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا“، چنانچہ اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحدود 2 (1689)، (تحفة الأشراف: 2949) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ بنی مخزوم کی ایک عورت نے کچھ لوگوں (کی گواہیوں) کے ذریعہ زیورات مانگے پھر ان سے مکر گئی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 18705) (صحیح) (یہ روایت سعید بن مسیب کی مرسل ہے، لیکن سابقہ سن دوں سے یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
اس سند سے بھی سعید بن مسیب سے اسی طرح سے مروی ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح) (سابقہ سن دوں سے تقویت پاکر یہ حدیث بھی صحیح لغیرہ ہے)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|