كتاب الضحايا کتاب: قربانی کے احکام و مسائل 13. بَابُ: الْمُسِنَّةِ وَالْجَذَعَةِ باب: مسنہ اور جذعہ کا بیان۔
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صرف مسنہ ذبح کرو سوائے اس کے کہ اس کی قربانی تم پر گراں اور مشکل ہو تو تم بھیڑ میں سے جذعہ ذبح کر دو“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الأضاحی 2 (1962)، سنن ابی داود/الضحایا 5 (2797)، سنن ابن ماجہ/الضحایا 7 (3141)، (تحفة الأشراف: 2715)، مسند احمد (3/312، 327) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: «مُسِنّہ»: وہ جانور ہے جس کے دودھ کے دانت ٹوٹ چکے ہوں، اور یہ اونٹ میں عموماً اس وقت ہوتا ہے جب وہ پانچ سال پورے کر کے چھٹے میں داخل ہو گیا ہو، اور گائے اور بیل میں اس وقت ہوتا ہے جب وہ دو سال پورے کر کے تیسرے میں داخل ہو گئے ہوں، اور بکری اور بھیڑ میں اس وقت ہوتا ہے جب وہ ایک سال پورا کر کے دوسرے میں داخل ہو جائیں، اور جذعہ اس دنبہ یا بھیڑ کو کہتے ہیں جو سال بھر کا ہو چکا ہو، (محققین اہل لغت اور شارحین حدیث کا یہی صحیح قول ہے، دیکھئیے مرعاۃ شرح مشکاۃ المصابیح) لیکن یہاں «مسنہ» سے مراد «مسنۃ من المعز» (یعنی دانت والی بکری) مراد ہے، کیونکہ اس کے مقابلے میں «جذعۃ من الضان» (ایک سال کا دنبا) لایا گیا ہے، یعنی: دانت والی بکری ہی جائز ہے، جس کے سامنے والے دو دانت ٹوٹ چکے ہوں ایک سال کی بکری جائز نہیں، ہاں اگر دانت والی بکری میسر نہ ہو تو ایک سال کا دنبہ جائز ہے۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو آپس میں تقسیم کرنے کے لیے بکریاں دیں، صرف ایک سال کی بکری بچ رہی۔ اس کا ذکر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا۔ تو آپ نے فرمایا: ”تم اسے ذبح کر لو“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوکالة 1 (2300)، الشرکة 12 (2500)، الأضاحی 7 (5555)، صحیح مسلم/الأضاحي 1 (1965)، سنن الترمذی/الأضاحي 7 (1500)، سنن ابن ماجہ/الأضاحي 7 (3138)، (تحفة الأشراف: 9955)، مسند احمد (4/149، 152)، سنن الدارمی/الأضاحی 4 (1997)، ویأتی فیما یلی: 4385، 4386 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: «عتود» ایک سال کی بکری کو کہتے ہیں۔ «جذعہ» بھی اسی معنی میں ہے، پس اگلی دونوں روایتوں میں جو «جذعہ» کا لفظ ہے اس کا مطلب ہے «جذعۃ من المعز» یعنی بکری کا ایک سالہ بچہ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عقبہ یا ابوبردہ رضی اللہ عنہما کو مجبوری کے تحت ایک سال کی بکری کی اجازت خصوصی طور سے دی تھی ورنہ قربانی میں اصل دانتا ہوا جانور ہی جائز ہے جیسا کہ حدیث نمبر: ۴۲۸۳ میں گزرا۔ ۲؎: ”تم اسے ذبح کر لو“ یعنی صرف تمہارے لیے جائز ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان قربانی کے جانور تقسیم کیے، میرے حصے میں ایک جذعہ آیا، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے حصے میں تو ایک جذعہ آیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”تم اسی کی قربانی کر لو“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأضاحي 2 (5547)، صحیح مسلم/الأضاحي 2 (1965)، سنن الترمذی/الأضاحي 7 (100م)، (تحفة الأشراف: 9910) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان قربانی کے جانور تقسیم کیے، تو مجھے ایک جذعہ ملا، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے تو ایک جذعہ ملا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”تم اسی کی قربانی کرو“۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: سكت عنه الشيخ
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جذعہ یعنی ایک سال کی بھیڑ کی قربانی کی ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 9969) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اولاً تو اس کے راوی ”معاذ بن عبداللہ“ بذات خود صدوق ہونے کے باوجود روایت میں وہم کا شکار ہو جایا کرتے تھے، تو ممکن ہے کہ «جذعۃ من المعز» یا صرف «جذعۃ» ہو اور انہوں نے وہم سے «جذعۃ من الضان» کر دیا ہو، ثانیاً: ہو سکتا ہے کہ یہ مجبوری کی صورت میں ہو، بہرحال بعض علماء اس حدیث اور اگلی دونوں حدیثوں سے استدلال کرتے ہوئے بغیر مجبوری کے بھی ”ایک سالہ دنبہ“ کی قربانی کو جائز قرار دیتے ہیں اور «مسنہ» والی حدیث کو استحباب پر محمول کرتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
کلیب کہتے ہیں کہ ہم سفر میں تھے کہ عید الاضحی کا وقت آ گیا، تو ہم میں سے کوئی دو دو یا تین تین جذعوں (ایک سالہ بھیڑوں) کے بدلے ایک مسنہ خریدنے لگا، تو مزینہ کے ایک شخص نے ہم سے کہا: ہم لوگ ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ یہی دن آ گیا (یعنی عید الاضحی) تو ہم میں سے کوئی دو یا تین جذعے دے کر مسنہ خریدنے لگا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جذعہ سے بھی وہی حق ادا ہو سکتا ہے جو «ثنی» یعنی مسنہ سے ہوتا ہے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 15664)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الأضاحی 5 (2799)، سنن ابن ماجہ/الضحایا7 (3140)، مسند احمد (5/368) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ایک تو بقول ابن المدینی ”عاصم بن کلیب“ جب روایت میں منفرد ہوں تو ان کی روایت سے استدلال جائز نہیں، دوسرے: ممکن ہے کہ «الجذع» سے مراد «الجذع من الضان» ”بھیڑ کا ایک سالہ بچہ“ ہو، بکری کا نہیں، تاکہ حدیث نمبر ۴۳۸۳ سے مطابقت ہو سکے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
کلیب ایک شخص سے روایت کرتے ہیں کہ اس نے کہا: ہم عید الاضحی سے دو دن پہلے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، ہم دو جذعے دے کر «ثنیہ» یعنی مسنہ لے رہے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جذعہ بھی اس کام کے لیے کافی ہے جس کے لیے «ثنیہ» یعنی مسنہ کافی ہے“۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|