(مرفوع) اخبرنا هناد بن السري في حديثه، عن ابي الاحوص، عن عاصم بن كليب، عن ابيه، قال: كنا في سفر , فحضر الاضحى، فجعل الرجل منا يشتري المسنة بالجذعتين والثلاثة، فقال لنا رجل من مزينة: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر , فحضر هذا اليوم، فجعل الرجل يطلب المسنة بالجذعتين والثلاثة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن الجذع يوفي مما يوفي منه الثني". (مرفوع) أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ فِي حَدِيثِهِ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ، عَنِ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كُنَّا فِي سَفَرٍ , فَحَضَرَ الْأَضْحَى، فَجَعَلَ الرَّجُلُ مِنَّا يَشْتَرِي الْمُسِنَّةَ بِالْجَذَعَتَيْنِ وَالثَّلَاثَةِ، فَقَالَ لَنَا رَجُلٌ مِنْ مُزَيْنَةَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ , فَحَضَرَ هَذَا الْيَوْمُ، فَجَعَلَ الرَّجُلُ يَطْلُبُ الْمُسِنَّةَ بِالْجَذَعَتَيْنِ وَالثَّلَاثَةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ الْجَذَعَ يُوفِي مِمَّا يُوفِي مِنْهُ الثَّنِيُّ".
کلیب کہتے ہیں کہ ہم سفر میں تھے کہ عید الاضحی کا وقت آ گیا، تو ہم میں سے کوئی دو دو یا تین تین جذعوں (ایک سالہ بھیڑوں) کے بدلے ایک مسنہ خریدنے لگا، تو مزینہ کے ایک شخص نے ہم سے کہا: ہم لوگ ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ یہی دن آ گیا (یعنی عید الاضحی) تو ہم میں سے کوئی دو یا تین جذعے دے کر مسنہ خریدنے لگا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جذعہ سے بھی وہی حق ادا ہو سکتا ہے جو «ثنی» یعنی مسنہ سے ہوتا ہے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: ایک تو بقول ابن المدینی ”عاصم بن کلیب“ جب روایت میں منفرد ہوں تو ان کی روایت سے استدلال جائز نہیں، دوسرے: ممکن ہے کہ «الجذع» سے مراد «الجذع من الضان»”بھیڑ کا ایک سالہ بچہ“ ہو، بکری کا نہیں، تاکہ حدیث نمبر ۴۳۸۳ سے مطابقت ہو سکے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 15664)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الأضاحی 5 (2799)، سنن ابن ماجہ/الضحایا7 (3140)، مسند احمد (5/368) (صحیح)»
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4388
اردو حاشہ: (1) مسنہ اور بوقت ضرورت بھیڑ کے جذعہ کی قربانی جائز ہے۔ (2) اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سفر میں بھی قربانی کرنا مشروع ہے۔ (3) جانوروں کی،جانوروں کے بدلے خرید و فروخت جائز ہے، نیز اس میں کمی بیشی بھی جائز ہے، یعنی ایک جانور بدلے میں دو یا زیادہ جانور لیے اور دیے جا سکتے ہیں۔ (4) اس اور دیگر روایات کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ مسنہ کی قربانی افضل ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4388