(مرفوع) اخبرنا الحسن بن محمد الزعفراني , قال: حدثنا حجاج , عن ابن جريج , قال: زعم عطاء , انه سمع عبيد بن عمير , يقول: سمعت عائشة تزعم: ان النبي صلى الله عليه وسلم كان يمكث عند زينب بنت جحش , فيشرب عندها عسلا , فتواصيت انا وحفصة ان ايتنا دخل عليها النبي صلى الله عليه وسلم، فلتقل: إني اجد منك ريح مغافير , اكلت مغافير؟ فدخل على إحداهما , فقالت ذلك له , فقال:" لا , بل شربت عسلا عند زينب بنت جحش , ولن اعود له" , فنزلت: يايها النبي لم تحرم ما احل الله لك إلى إن تتوبا إلى الله سورة التحريم آية 1 - 4 عائشة , وحفصة وإذ اسر النبي إلى بعض ازواجه حديثا سورة التحريم آية 3 , لقوله:" بل شربت عسلا". (مرفوع) أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِيُّ , قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ , عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ , قَالَ: زَعَمَ عَطَاءٌ , أَنَّهُ سَمِعَ عُبَيْدَ بْنَ عُمَيْرٍ , يَقُولُ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ تَزْعُمُ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَمْكُثُ عِنْدَ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ , فَيَشْرَبُ عِنْدَهَا عَسَلًا , فَتَوَاصَيْتُ أَنَا وَحَفْصَةُ أَنَّ أَيَّتُنَا دَخَلَ عَلَيْهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلْتَقُلْ: إِنِّي أَجِدُ مِنْكَ رِيحَ مَغَافِيرَ , أَكَلْتَ مَغَافِيرَ؟ فَدَخَلَ عَلَى إِحْدَاهُمَا , فَقَالَتْ ذَلِكَ لَهُ , فَقَالَ:" لَا , بَلْ شَرِبْتُ عَسَلًا عِنْدَ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ , وَلَنْ أَعُودَ لَهُ" , فَنَزَلَتْ: يَأَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ إِلَى إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ سورة التحريم آية 1 - 4 عَائِشَةُ , وَحَفْصَةُ وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَى بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا سورة التحريم آية 3 , لِقَوْلِهِ:" بَلْ شَرِبْتُ عَسَلًا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام المؤمنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے پاس ٹھہرتے اور ان کے پاس شہد پیتے تھے، میں نے اور حفصہ نے آپس میں مشورہ کیا کہ ہم میں سے جس کے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آئیں تو وہ کہے: مجھے آپ (کے منہ) سے مغافیر ۱؎ کی بو محسوس ہو رہی ہے، آپ نے مغافیر کھائی ہے۔ آپ ان دونوں میں سے ایک کے پاس گئے تو اس نے آپ سے یہی کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، میں نے تو زینب بنت جحش کے پاس شہد پیا ہے اور آئندہ اسے نہیں پیوں گا“۔ تو آیت کریمہ «يا أيها النبي لم تحرم ما أحل اللہ لك» سے (آیت کا سیاق یہ ہے کہ)”اے نبی جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے حلال کر دیا ہے اسے آپ کیوں حرام کرتے ہیں“(التحریم: ۱) «إن تتوبا إلى اللہ»(آیت کا سیاق یہ ہے کہ)”(اے نبی کی بیویو!) اگر تم دونوں اللہ تعالیٰ کے سامنے توبہ کر لو (تو بہتر ہے)“(التحریم: ۴) تک نازل ہوئی، اس سے عائشہ اور حفصہ رضی اللہ عنہما مراد ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول: میں نے تو شہد پیا ہے (مگر اب نہیں پیوں گا) کی وجہ سے آیت کریمہ «وإذ أسر النبي إلى بعض أزواجه حديثا»”جب نبی نے اپنی بعض عورتوں سے چپکے سے ایک بات کہی“(التحریم: ۳) نازل ہوئی۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 3410 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ایک قسم کا گوند ہے جو بعض درختوں سے نکلتا ہے۔