كتاب الجهاد کتاب: جہاد کے احکام، مسائل و فضائل 40. بَابُ: فَضْلِ الْجِهَادِ فِي الْبَحْرِ باب: سمندر میں جہاد کرنے کی فضیلت کا بیان۔
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب قباء جاتے تو ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا کے یہاں بھی جاتے، وہ آپ کو کھانا کھلاتیں۔ ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں، ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے یہاں تشریف لے گئے تو انہوں نے آپ کو کھانا کھلایا اور آپ کے سر کی جوئیں دیکھنے بیٹھ گئیں۔ آپ سو گئے، پھر جب اٹھے تو ہنستے ہوئے اٹھے، کہتی ہیں: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کو کس چیز نے ہنسایا؟ آپ نے فرمایا: ”(خواب میں) مجھے میری امت کے کچھ مجاہدین دکھائے گئے وہ اس سمندر کے سینے پر سوار تھے، تختوں پر بیٹھے ہوئے بادشاہ لگتے تھے“، یا تختوں پر بیٹھے ہوئے بادشاہوں جیسے لگتے تھے۔ (اس جگہ اسحاق راوی کو شک ہو گیا ہے (کہ ان کے استاد نے «ملوك على الأسرة» کہا، یا «مثل الملوك على الأسرة» کہا)۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ مجھے بھی انہیں لوگوں میں سے کر دے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعا فرما دی، پھر آپ سو گئے۔ (اور حارث کی روایت میں یوں ہے۔ آپ سوئے) پھر جاگے، پھر ہنسے پھر میں نے آپ سے کہا: اللہ کے رسول! آپ کے ہنسنے کی وجہ کیا ہے؟ آپ نے (جیسے اس سے پہلے فرمایا تھا) فرمایا: ”مجھے میری امت کے کچھ لوگ اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہوئے دکھائے گئے وہ تختوں پر بیٹھے بادشاہ تھے، یا تختوں پر بیٹھے بادشاہوں جیسے لگتے تھے۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول! دعا فرمائیے کہ اللہ مجھے بھی انہیں لوگوں میں شامل فرمائے، آپ نے فرمایا: تم (سمندر میں جہاد کرنے والوں کے) پہلے گروپ میں ہو گی۔ (انس بن مالک راوی حدیث فرماتے ہیں) پھر وہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں سمندری سفر پر جہاد کے لیے نکلیں تو وہ سمندر سے نکلتے وقت اپنی سواری سے گر کر ہلاک ہو گئیں“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجہاد 3 (2788)، 93 (2924)، الاستئذان41 (6282)، التعبیر 12 (7001)، صحیح مسلم/الإمارة 49 (1912)، سنن ابی داود/الجہاد 10 (2490)، سنن الترمذی/فضائل الجہاد 15 (1645)، سنن ابن ماجہ/الجہاد 10 (2776)، (تحفة الأشراف: 199)، موطا امام مالک/الجہاد 18 (39)، مسند احمد (3/240) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: قباء مدینہ کے قریب ایک جگہ کا نام ہے۔ ”ام حرام بنت ملحان“ کہا جاتا ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی خالہ ہیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے یہاں آئے اور سو گئے پھر ہنستے ہوئے اٹھے۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، کس چیز نے آپ کو ہنسایا؟ آپ نے فرمایا: ”میں نے اپنی امت میں سے ایک جماعت دیکھی جو اس سمندری (جہاز) پر سوار تھے، ایسے لگ رہے تھے جیسے بادشاہ تختوں پر بیٹھے ہوئے ہوں“، میں نے کہا: اللہ سے دعا فرما دیجئیے کہ اللہ مجھے بھی انہیں لوگوں میں سے کر دے، آپ نے فرمایا: ”تم اپنے کو انہیں میں سے سمجھو“، پھر آپ سو گئے پھر ہنستے ہوئے اٹھے، پھر میں نے آپ سے پوچھا تو آپ نے اپنی پہلی ہی بات دہرائی، میں نے پھر دعا کی درخواست کی کہ آپ دعا فرما دیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے انہیں لوگوں میں کر دے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم (سوار ہونے والوں کے) پہلے دستے میں ہو گی“۔ پھر ان سے عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے شادی کی ۱؎، اور وہ سمندری جہاد پر نکلے تو وہ بھی انہیں کے ساتھ سمندری سفر پر نکلیں، پھر جب وہ جہاز سے نکلیں تو سواری کے لیے انہیں ایک خچر پیش کیا گیا، وہ اس پر سوار ہوئیں تو اس نے انہیں گرا دیا جس سے ان کی گردن ٹوٹ گئی (اور ان کا انتقال ہو گیا)۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجہاد 8 (2799)، 63 (2877، 2878)، 75 (2894، 2895)، صحیح مسلم/الإمارة 49 (1912)، سنن ابی داود/الجہاد 10 (2490، 2492)، سنن ابن ماجہ/الجہاد 10 2776)، (تحفة الأشراف: 18307)، مسند احمد (6/361، 423)، سنن الدارمی/الجہاد 29 (2465) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ عبادہ بن صامت رضی الله عنہ سے ان کی شادی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بشارت کے بعد ہوئی ہے جب کہ اس سے «ما قبل» کی روایت میں یہ ہے کہ ام حرام رضی الله عنہا اس وقت عبادہ کے ماتحت تھیں۔ دونوں روایتوں میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ پہلی روایت میں «و كانت تحت عبادة» کے جملہ سے راوی کی مراد وقت کی تقیید کے بغیر دونوں کے تعلق کو بیان کرنا ہے جب کہ اس روایت میں وقت اور حال کی قید کے ساتھ اس تعلق کی وضاحت کرنا راوی کا مقصود ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|