كتاب الجهاد کتاب: جہاد کے احکام، مسائل و فضائل 1. بَابُ: وُجُوبِ الْجِهَادِ باب: جہاد کی فرضیت کا بیان۔
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ سے نکالے گئے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: انہوں نے اپنے نبی کو نکال دیا «إنا لله وإنا إليه راجعون» یہ لوگ ضرور ہلاک ہو جائیں گے۔ تو یہ آیت نازل ہوئی «أذن للذين يقاتلون بأنهم ظلموا وإن اللہ على نصرهم لقدير» ”جن (مسلمانوں) سے (کافر) جنگ کر رہے ہیں، انہیں بھی مقابلے کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ وہ بھی مظلوم ہیں۔ بیشک ان کی مدد پر اللہ قادر ہے“۔ (الحج: ۳۹) تو میں نے سمجھ لیا کہ اب جنگ ہو گی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: ”یہ پہلی آیت ہے جو جنگ کے بارے میں اتری ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/تفسیرالحج (3171)، (تحفة الأشراف: 5618)، مسند احمد (1/216) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ اور ان کے کچھ دوست نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب آپ مکہ میں تشریف فرما تھے آئے، اور انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! جب ہم مشرک تھے عزت سے تھے، اور جب سے ایمان لے آئے ذلیل و حقیر ہو گئے۔ آپ نے فرمایا: ”مجھے عفو و درگزر کا حکم ملا ہوا ہے۔ تو (جب تک لڑائی کا حکم نہ مل جائے) لڑائی نہ کرو“، پھر جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں مدینہ بھیج دیا، اور ہمیں جنگ کا حکم دے دیا۔ تو لوگ (بجائے اس کے کہ خوش ہوتے) باز رہے (ہچکچائے، ڈرے) تب اللہ تعالیٰ نے آیت: «ألم تر إلى الذين قيل لهم كفوا أيديكم وأقيموا الصلاة» ”کیا تم نے انہیں نہیں دیکھا جنہیں حکم کیا گیا تھا کہ اپنے ہاتھوں کو روکے رکھو، اور نمازیں پڑھتے رہو، اور زکاۃ ادا کرتے رہو۔ پھر جب انہیں جہاد کا حکم دیا گیا تو اسی وقت ان کی ایک جماعت لوگوں سے اس قدر ڈرنے لگی جیسے اللہ تعالیٰ کا ڈر ہو، بلکہ اس سے بھی زیادہ اور کہنے لگے: اے ہمارے رب! تو نے ہم پر جہاد کیوں فرض کر دیا؟ کیوں ہمیں تھوڑی سی زندگی اور نہ جینے دی؟ آپ کہہ دیجئیے کہ دنیا کی سود مندی تو بہت ہی کم ہے اور پرہیزگاروں کے لیے تو آخرت ہی بہتر ہے اور تم پر ایک دھاگے کے برابر بھی ستم روا نہ رکھا جائے گا (النساء: ۷۷) اخیر تک نازل فرمائی۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 6171) (صحیح الإسناد)»
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے جامع کلمات ۱؎ دے کر بھیجا گیا ہے اور میری مدد رعب ۲؎ سے کی گئی ہے۔ اس دوران کہ میں سو رہا تھا کہ زمین کے خزانوں کی کنجیاں مجھے دی گئیں، اور میرے ہاتھوں میں تھما دی گئیں“، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اس دنیا سے) رخصت ہو گئے لیکن تم ان خزانوں کو نکال کر خرچ کر رہے ہو ۳؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساجد (523)، (تحفة الأشراف: 13281، 13342)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الجہاد 122 (2977)، والتعبیر 11 (6998)، 22 (7013)، والاعتصام1 (7273)، مسند احمد (2/268) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: «جامع کلمات» یعنی قرآن و حدیث جن کے الفاظ مختصر ہیں مگر معانی بہت، «جوامع الکلم» میں صفت کی اضافت موصوف کی طرف ہے، اس سے مراد «الکلم الجامعۃ» ہے۔ ۲؎: یعنی ایسے دبدبہ و دھاک سے کی گئی ہے جس سے بلا کسی عادی سبب کے دشمنوں کے دلوں میں خوف طاری ہو جاتا ہے۔ ۳؎: خزانوں سے مراد روم و ایران اور مصر و شام وغیرہ کی فتوحات اور وہاں کی دولت پر مسلمانوں کا تصرف ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
اس سند سے بھی ابوہریرہ رضی الله عنہ سے اسی طرح مروی ہے وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 15346)، مسند احمد (2/250، 442) (صحیح) (سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے)»
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا میں جامع کلمات دے کر بھیجا گیا ہوں ۱؎ اور میری مدد رعب و دبدبہ سے کی گئی ہے، مجھے سوتے میں زمین کے خزانوں کی کنجیاں پیش کی گئیں (اور پیش کرتے ہوئے) میرے ہاتھ میں رکھ دی گئیں۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ (اس کی وضاحت کرتے ہوئے) کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اس دنیا سے) چلے گئے اور تم ان (خزانوں) سے فیض اٹھا رہے ہو۔ (انہیں نکال رہے اور خرچ کر رہے ہو)
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساجد (523)، (تحفة الأشراف: 13256) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی مختصر فصیح و بلیغ کلمے جن میں الفاظ تو تھوڑے ہوں لیکن مفہوم و معانی سے بھرے ہوئے ہوں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اس وقت تک لوگوں سے لڑتا رہوں جب تک کہ لوگ «لا إله إلا اللہ» کہنے نہ لگ جائیں۔ تو جس نے «لا إله إلا اللہ» کہہ لیا، اس نے اپنے مال اور اپنی جان کو ہم (مسلمانوں) سے محفوظ کر لیا (اب اس کی جان و مال کو مسلمانوں سے کوئی خطرہ نہیں) سوائے اس کے کہ وہ خود ہی (اپنی غلط روی سے) اس کا حق فراہم کر دے ۱؎، اور اس کا (آخری) حساب اللہ کے ذمہ ہے ۲؎“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإیمان8 (21)، (تحفة الأشراف: 13344)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الجہاد102 (2946)، مسند احمد (2/314، 423، 439، 475، 482، 502) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ایسی صورت میں اس کی گردن ماری بھی جا سکتی ہے اور اس کا مال ضبط بھی کیا جا سکتا ہے۔ ۲؎: کس نے دکھانے کے لیے اسلام قبول کیا ہے اور کون سچے دل سے اسلام لایا ہے، یہ اللہ ہی فیصلہ کرے گا، یہاں صرف ظاہر کا اعتبار ہو گا۔ قال الشيخ الألباني: صحيح متواتر
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ بنا دیئے گئے، اور عربوں میں سے جن کو کافر ہونا تھا وہ کافر ہو گئے ۱؎، تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ابوبکر! آپ لوگوں سے کیسے جنگ کریں گے جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”مجھے تو لوگوں سے لڑنے کا اس وقت تک حکم دیا گیا ہے جب تک کہ لوگ «لا إله إلا اللہ» کے قائل نہ ہو جائیں، تو جس نے «لا إله إلا اللہ» کہہ لیا، اس نے اپنے مال اور اپنی جان کو ہم (مسلمانوں) سے محفوظ کر لیا (اب اس کی جان و مال کو مسلمانوں سے کوئی خطرہ نہیں) سوائے اس کے کہ وہ خود ہی (اپنی غلط روی سے) اس کا حق فراہم کر دے اور اس کا (آخری) حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے“، (اور یہ زکاۃ نہ دینے والے «لا إله إلا اللہ» کے قائل ہیں) ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: قسم اللہ کی میں ہر اس شخص سے لڑوں گا جو نماز اور زکاۃ میں فرق کرے گا، (یعنی نماز پڑھے گا اور زکاۃ دینے سے انکار کرے گا) کیونکہ زکاۃ مال کا حق ہے، (جس طرح نماز بدن کا حق ہے) قسم اللہ کی، اگر لوگوں نے مجھے بکری کا سال بھر سے چھوٹا بچہ بھی دینے سے روکا جسے وہ زکاۃ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا کرتے تھے۔ تو اس روکنے پر بھی میں ان سے ضرور لڑوں گا۔ (عمر کہتے ہیں:) قسم اللہ کی اس معاملے کو تو میں نے ایسا پایا کہ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو قتال کے لیے شرح صدر بخشا ہے، اور میں نے سمجھ لیا کہ حق یہی ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 2445 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی دین حق سے مرتد ہو گیا، اور زکاۃ جو اس پر واجب تھی اس کی ادائیگی کا منکر ہو بیٹھا۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انتقال فرما گئے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کے بعد آپ کے خلیفہ ہوئے اور عربوں میں جن کو کافر ہونا تھا وہ کافر ہو گئے، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ابوبکر! آپ لوگوں سے کیسے جنگ کریں گے جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: مجھے تو لوگوں سے لڑنے کا اس وقت تک حکم دیا گیا ہے جب تک کہ لوگ «لا إله إلا اللہ» کے قائل نہ ہو جائیں تو جس نے «لا إله إلا اللہ» کہہ لیا اس نے اپنے مال اور اپنی جان کو ہم (مسلمانوں) سے محفوظ کر لیا (اب اس کی جان و مال کو مسلمانوں سے کوئی خطرہ نہیں) سوائے اس کے کہ وہ خود ہی (اپنی غلط روی سے) اس کا حق فراہم کر دے اور اس کا (آخری) حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔ (اور یہ زکاۃ نہ دینے والے «لا إله إلا اللہ» کے قائل ہیں) تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: قسم اللہ کی، میں ہر اس شخص سے لڑوں گا جو نماز اور زکاۃ میں فرق کرے گا، (یعنی نماز پڑھے گا اور زکاۃ دینے سے انکار کرے گا) کیونکہ زکاۃ مال کا حق ہے (جس طرح نماز بدن کا) قسم اللہ کی، اگر لوگوں نے مجھے بکری کا سال بھر سے چھوٹا بچہ بھی دینے سے روکا جسے وہ زکاۃ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا کرتے تھے۔ تو اس روکنے پر بھی میں ان سے ضرور لڑوں گا۔ (عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:) قسم اللہ کی، اس معاملے کو تو میں نے ایسا پایا کہ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو قتال کے لیے شرح صدر بخشا ہے اور میں نے سمجھ لیا کہ حق یہی ہے۔ اس حدیث کے الفاظ احمد کے ہیں۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 2445 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے (لوگوں کو) ان (منکرین زکاۃ و مرتدین دین) سے جنگ کے لیے اکٹھا کیا۔ تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ لوگوں سے کیسے لڑیں گے؟ جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما چکے ہیں: ”مجھے تو لوگوں سے لڑنے کا اس وقت تک حکم دیا گیا ہے جب تک کہ لوگ «لا إله إلا اللہ» کے قائل نہ ہو جائیں، اور جب انہوں نے یہ کلمہ کہہ لیا تو اپنے خون اور اپنے مال کو مجھ سے بچا لیا۔ مگر اس کے حق کے بدلے (جان و مال پر جو حقوق لگا دیئے گئے ہیں اگر ان کی پاسداری نہ کرے گا تو سزا کا حقدار ہو گا۔ مثلاً قصاص و حدود ضمانت وغیرہ میں) ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں تو ہر اس شخص سے لڑوں گا جو نماز اور زکاۃ (دونوں فریضوں) میں فرق کرے گا۔ اور قسم اللہ کی اگر انہوں نے مجھے بکری کا ایک چھوٹا بچہ بھی دینے سے انکار کیا جسے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا کرتے تھے۔ تو میں ان کے اس انکار پر بھی ان سے جنگ کروں گا۔ عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: قسم اللہ کی میں نے اچھی طرح جان لیا کہ ان (منحرفین) سے جنگ کے معاملہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کو پورے طور پر شرح صدر حاصل ہے۔ (تبھی وہ اتنے مستحکم اور فیصلہ کن انداز میں بات کر رہے ہیں) اور مجھے یقین آ گیا کہ وہ حق پر ہیں۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 2445 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رحلت فرما گئے، تو عرب (دین اسلام سے) مرتد ہو گئے، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ابوبکر! آپ عربوں سے کیسے لڑائی لڑیں گے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑوں یہاں تک کہ لوگ گواہی دینے لگیں کہ کوئی معبود برحق نہیں ہے سوائے اللہ کے اور میں اللہ کا رسول ہوں، اور نماز قائم کرنے لگیں، اور زکاۃ دینے لگیں، قسم اللہ کی، اگر انہوں نے ایک بکری کا چھوٹا بچہ دینے سے انکار کیا جسے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (زکاۃ میں) دیا کرتے تھے تو میں اس کی خاطر بھی ان سے لڑائی لڑوں گا۔ عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب میں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے دیکھی کہ انہیں اس پر شرح صدر حاصل ہے تو مجھے یقین ہو گیا کہ وہ حق پر ہیں“۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: عمران بن قطان حدیث میں قوی نہیں ہیں۔ یہ حدیث صحیح نہیں ہے، اس سے پہلے والی حدیث صحیح و درست ہے، زہری کی حدیث کا سلسلہ «عن عبيد اللہ بن عبداللہ بن عتبة عن أبي هريرة» ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 3979)، ویأتي عند المؤلف: 3974 (حسن صحیح)»
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے حکم ملا ہے کہ جب تک لوگ «لا إله إلا اللہ» کے قائل نہ ہو جائیں میں ان سے لڑوں تو جس نے اسے کہہ لیا (قبول کر لیا) تو اس نے مجھ سے اپنی جان و مال محفوظ کر لیا۔ اب ان پر صرف اسی وقت ہاتھ ڈالا جا سکے گا جب اس کا حق (وقت و نوبت) آ جائے ۱؎۔ اور اس کا حساب اللہ تعالیٰ کرے گا ۲؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجہاد 102 (2946)، (تحفة الأشراف: 13152)، و یأتي عند المؤلف: 3097 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مثلاً حد و قصاص و ضمان میں تو اس پر حد جاری کی جائے گی، قصاص لیا جائے گا اور اس سے مال دلایا جائے گا۔ ۲؎: کہ وہ ایمان خلوص دل سے لایا تھا یا صرف دکھاوے کے لیے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
انس رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مشرکین سے جہاد کرو اپنے مالوں، اپنے ہاتھوں، اور اپنی زبانوں کے ذریعہ“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الجہاد18 (2504)، (تحفة الأشراف: مسند احمد (3/124، 153، 251)، سنن الدارمی/الجہاد38 (2475)، ویأتی عند المؤلف برقم: 3194 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مال اور ہاتھ سے جہاد کا مطلب بالکل واضح ہے، زبان سے جہاد کا مطلب یہ ہے کہ زبان سے جہاد کے فضائل بیان کئے جائیں، اور لوگوں کو اس پر ابھارنے کے ساتھ انہیں اس کی رغبت دلائی جائے۔ اور کفار کو اسلام کی زبان سے دعوت دی جائے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|